Saturday, 9 September 2017

بلیو وهیل گیم

آج کل ہر کوئی گوگل پلے سٹور سے ایک جھوٹی گیم کی تصویر لگا کر اس کو خودکشی کرنے والی گیم کا بتا کر یہاں وہاں شیئر کرتے رہتے ہیں مگر لوگوں کو بھی اتنی عقل نہیں کہ ایک بار ٹھیک سے تحقیق کر کے پھر اس طرح کی تصویروں اور باتوں کو آگے شیئر کیا جائے-
کیا آپ کا ضمیر مانتا ہے کہ آپ ایک جھوٹی بات یا پوسٹ کو شیئر کرتے جائیں؟ 
میں نے پہلے بھی بلیو وہیل نامی ایک خطرناک گیم کا بتایا تھا مگر پھر بھی بہت لوگوں نے میسج کر کے پھر سے بتانے کا کہا، اس لئے آج کچھ تفصیل سے بتاتا چلوں کہ
جب بہت بچوں کی خودکشی کرنے کی وجہ تلاش کی جارہی تھی تب تحقیق سے یہ پتا چلا تھا کہ ان سب بچوں نے کسی گیم کی وجہ سے خودکشی کی ہے اور وہ گیم
Blue Whale Challenge
تھی-
زیادہ تر بچے فرانس اور روس میں خودکشی کرتے ہوئے پائے گئے تھے، اس گیم میں
50 Tasks
مطلب 50 دنوں کے کئے کچھ کام دئے جاتے ہیں اور ہر دن آپ کو صرف ایک ہی کام کرنا ہوتا ہے پھر جاکر یہ گیم آگے چلے گی-
اس گیم میں زیادہ تر 12 سے 16 سال کے بچوں کو نشانا بنایا جاتا ہے-
شروع شروع میں آپ کو روزانہ آسان سے کام دئے جائیں گے جو کوئی بھی آسانی سے کر سکتا ہے مگر کچھ دن بعد آپ کو یہ کہا جائے گا کہ اپنے ہاتھ پر
F57
یا بلیو وہیل مچھلی کی تصویر بنائیں وہ بھی کسی تیز آلے سے-
اگر آپ نے یہ کام کر کے اس گیم کے ایڈمن کو تصویر بھیجی تو گیم آگے جائے گی ورنہ نہیں-
اس گیم میں رات کو چار بجے اٹھنے کا کہا جاتا ہے
اس گیم میں رات کو اکیلے میں
مشہور ڈراونی فلم
The Exorcist
دیکھنے کا کہا جاتا ہے- اس گیم میں رات کو تین بجے گھر سے باہر نکل کر تقریبا ایک گھنٹے تک چلتے رہنے کا کہا جاتا ہے- خود کو کاٹنے یا جلانے کا کہا جاتا ہے- کسی اونچی جگھ پر کھڑے رہنے کا کہا جاتا ہے- سارا دن کسی سے بات کرنے سے منع کیا جاتا ہے- اور 49 دن تک الگ الگ کام دئے جاتے ہیں مگر آخری دن خود کو چاقو مار کر یا کھڑکی سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرنے کا کہا جاتا ہے-

اگر کوئی خودکشی کرنے کے لئے راضی نہ ہو تو کیا ہوگا؟
پھر اس کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے کہ ہم تمہارے گھر والوں کو مار دیں گے یا ان کو نقصان پہنچائیں گے اور تو اور اس گیم کا ایڈمن ان 50 دنوں کے اندر اندر گیم کھیلنے والے کا موبایل ہیک کر کے اس کی معلومات بھی جمع کر لیتا ہے تاکہ وہ حکم نہ ماننے پر اس کو
Blackmail
کر سکے-
اس گیم کو جب ڈاون لوڈ کیا جائے تو
فیس بک کی طرح پہلے پہلے
Blue
رنگ ہوتا ہے
جس کے سب سے اوپر
Blue Whale Game
لکھا ہوا ہوتا ہے اور بیچ میں
Start
اور
More Apps
لکھا ہوا ہوتا ہے-
جب آپ
Start
پر کلک کریں تو
اوپر
Day 1
لکھا ہوگا اور نیچے کوئی نہ کوئی کام کے بارے میں لکھا ہوگا-
جب وہ کام آپ نے کر دیا تو دوسرے دن دوسرا کام ملے گا-

اس تصویر میں دکھایا گیا شیطان ہی
Philipp Budeikin
روس کا 22 سالہ اس گیم کو بنانے والا شخص ہے، جو آج کل جیل میں ہے اور اس
پر 16 کم عمر لڑکیوں کی خودکشی کرنے کا الزام ہے جسے یہ قبول بھی کر چکا ہے-
یہ تو پکڑا گیا مگر اس کی گیم آج بھی ہر جگھ موجود ہے- اور حال ہی میں انڈیا میں ایک کم عمر لڑکے نے اس گیم کی وجہ سے خودکشی کی تھی-

یہ گیم روس میں 2013 میں بنائی گئی تھی
اور
F57
ایک
VK
نامی
Social Network
ہے جو روس اور اس کے آس پاس کے ممالک میں مشہور ہے یہیں سے یہ گیم شروع کی گئی تھی-
یہ گیم صرف انگلش میں ہی ہے-

اس لئے اگر آپ کے گھر 12 سال سے بڑی عمر کے بچے ہیں تو ان پر ان باتوں کو خیال رکھیں کہ
وہ خود کو زخم تو نہیں دے رہے؟
وہ رات کو اکیلے میں ڈراونی فلم تو نہیں دیکھ رہے؟ وہ رات کو چار بجے تو نہیں اٹھ رہے؟ وہ رات کو تین بجے گھر سے باہر تو نہیں جا رہے؟ وہ عجیب عجیب حرکتیں تو نہیں کر رہے؟

کیونکہ آج کل یہ گیم ہر جگھ موجود ہے کبھی بھی کسی کا بھی بچہ اس گیم کا شکار بن سکتا ہے-

اس گیم کا نام بلیو وہیل مچھلی پر اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ یہ مچھلیاں خودکشی کرنے میں مشہور ہیں-

نوٹ:  یہ گیم ایک حقیقت ہے میرے پاس ہر اس لڑکی اور لڑکے کی بھی معلومات ہیں جس جس نے خودکشی کی تھی، اس لئے اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں کیونکہ پاکستان کے ساتھ والے ملک مطلب انڈیا میں کچھ ہی دن پہلے ایک لڑکے نے خودکشی کر لی تھی- ان معصوم سے چھوٹے بچوں کو ڈرا دھمکا کر خود کو زخم دینے اور خودکشی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے مگر وہ بچے اس گیم کو ایک عام گیم سمجھ کر کھیلنے لگتے ہیں- 

اور جو جو لوگ کچھ دن سے فیس بک پر گوگل پلے سٹور کی ایک عام گیم کو بلیو وہیل بنا کر پوسٹ کر رہے ہیں اور اپنی پوسٹ اور پیج کے لائکس بڑھا رہے ہیں ان کو آخرت میں جواب دینا ہوگا- پوسٹ کرنی ہو تو سچی پوسٹ کیا کریں تاکہ کم سے کم کسی کو نقصان کے بجائے فائدہ تو ہو- 
کچھ لوگ کہتے ہیں ہم نے یہ گیم کھیلی ہے
ان سے صرف اتنا پوچھیں کہ گیم کی اپلیکیشن کھولتے ہی کیا آتا ہے؟ تو ان کو ذرا سا بھی نہیں پتا ہوگا-
جب لوگ جھوٹ بولتے ہیں کہ میں نے بھی کھیلی ہے تو دوسرے ان کی بات سن کر وہ بھی کھیل سکتے ہیں اور کھیلتے کھلتے پتا نہیں اس گیم میں کہا تک پہنچ جائیں-

No comments:

Post a Comment