Tuesday 25 April 2017

منافقین و گستاخان رسول ﷺ

منافقین و گستاخانِ رسولِ مدینہ اوراخلاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم

(عبداللہ بن ابی منافقین کا سردار اور بہت بڑا گستاخ رسول تھا۔  وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیٹھ پیچھے  مذاق اڑایا کرتا اوران کو برا بھلا کہتا۔
اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے لیے دل میں نفرت، بغض اور کینہ رکھا ہوا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر زنا کی تہمت لگانے میں پیش پیش تھا۔
عبد اللہ بن ابی کے یہ الفاظ قرآن پاک نے بیان کئے۔

يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کرگئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نکال دے گا اسے جو نہایت ذلت والا ہے۔

عبداللہ بن ابی کا بیٹا عبداللہ مخلص مومن تھا اس نے جب اپنے باپ کے اس قول کے بارے میں سنا تو وہ مدینہ کے باہر ٹھہر گیا اور لوگ مدینہ میں داخل ہوتے رہے یہاں تک کہ اس کا باپ (عبداللہ بن ابی ) آیا تو اس نے کہا : ” ٹھہرجا “ ابن ابی بولا تجھ پر افسوس ہے کہ تجھے کیا ہوگیا ہے۔ عبداللہ بن عبداللہ بن ابی نے کہا : خدا کی قسم کہ تو کبھی بھی مدینہ میں داخل نہ ہوسکے گا مگر یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے لئے اجازت فرمائیں اور آج تجھے ضرور پتا چل جائے گا کہ سب سے زیادہ عزت والا کون ہے اور سب سے زیادہ ذلت والا کون ہے پھر وہ پلٹ کر گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی اور جو کچھ اس کے بیٹے نے کیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی شکایت کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف پیغام بھجوایا کہ اس کو چھوڑ دو اور (جانے دو ) تو انہوں نے باپ کو جانے دیا. عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے اپنے باپ سے کہا کہ اللہ کی قسم ہم اس وقت تک یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک تم اس بات کا اقرار نہ کرو کہ تم ذلیل اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معزز ہیں۔ پھر اس نے اقرار کیا۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1264
اس سے بڑی گستاخی کیا ہو گی؟ ذرا غور فرمائیں کہ قرآن اور حدیث شریف کیا بتا رہے ہیں کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے بارے میں کیا الفاظ استعمال کیے. اس سے بڑھ کر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کوئی گستاخی اور بے ادبی ہو سکتی ہے؟
یہ سب بہت بڑی گستاخیاں ہیں اور عبداللہ بن ابی نے کیں. اس کے علاوہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی بہت سی گستاخیاں کیں۔ لیکن اس سب کے با وجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے ساتھ کیسا برتاؤ تھا یہ سب مندرجہ ذیل مضمون میں دیکھا جا سکتا ہے۔یہ ساری وضاحت تفاسیر اور  سیرت کی تمام مستند کتب سے ثابت ہے.)
نور نبوت کی کرنیں غار حرا کے منبع نور سے پھوٹیں تو اس کا عکس سب سے پہلے مکہ کے معاشرہ پر پڑا، کیوں کہ خود حضور  صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے ایک مشہور اور معروف قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس طرح اس نئے مذہب کا علم مکہ کے سرداروں اور لوگوں کو سب سے پہلے ہوا۔ مکہ میں اس وقت دو قسم کے اشخاص تھے۔ ایک وہ جو واضح طورپر کافر تھے اور دین اسلام کے کٹر مخالف۔ دوسرا طبقہ ضعیف مسلمانوں کا تھا جو کٹر مسلمان تھے۔ (خیال رہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر عورتوں میں سب سے پہلے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے لبیک کہا۔ مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور بچوں میں سب سے پہلے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت علی ابن ابی طالب مشرف بہ اسلام ہوئے۔ پھر قبول اسلام کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے) مکہ میں یہودی اور عیسائی آبادی نہ تھی، بلکہ دین ابراہیمی کی بگڑی ہوئی شکل اور بت پرستی تھی۔ اس کے برعکس مدینہ کا معاشرہ کئی اعتبار سے مکہ سے مختلف تھا۔ پہلا فرق یہ تھا کہ مکہ کی زندگی میں منافق طبقہ موجود نہیں تھا۔ کھل کر لوگ مسلمان تھے یا کھل کر کافر تھے۔ جب کہ مدینہ میں ایک بڑا طبقہ منافقوں کا پیدا ہوگیا تھا۔ یہ طبقہ مالدار، موثر اور باوقار تھا۔ اس نے اسلام کو اندر سے نقصان پہنچانے کے بڑے بڑے پلان بنائے، حتیٰ کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا پلان بھی بنایا، مگر چوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی حیات پاک کا خود محافظ تھا اس لئے کوئی شخص آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر قادر نہیں ہوسکتا تھا: ارشاد ربانی ہے: ”واللہ یعصمک من الناس“ (النحل)

اس حفاظت کی ضمانت کے بعد حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کی حفاظت کے لیے پہرہ داروں کو منع کردیا اور کہہ دیا کہ جاؤ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کی ضمانت دے دی ہے۔

منافقین مدینہ میں سب سے پہلا اور اہم نام عبداللہ بن ابی ابن سلول کا ہے۔ اوس اور خزرج بنی قیل کے اولاد تھے اوریمنی تھے۔ یمنی اور مضری قبائل میں باہم سخت جنگ وجدال تھا، مگر حکمت خداوندی دیکھئے کہ اپنے پاسبان پائے یمنی قبائل سے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور خلفائے راشدین کے زمانے میں یمنی اور مضری تنازعات نہیں ابھرے۔ انصار مدینہ یمنی تھے اور رسول خدا  صلی اللہ علیہ وسلم مضری تھے۔ یہ دو عناصر اسلامی تاریخ کے مطالعہ کے لیے اشد ضروری ہیں۔ ان ہی تنازعات نے نبی امیہ کے آخر میں اس حکومت کی دھجیاں اڑادیں۔ اندلس میں مسلمانوں کو جو شکست ہوئی اور حکومت کے پرخچے اڑے اس میں بھی یمنی اور مضری قبائل کے اختلاف نے اہم رول ادا کیا، لیکن حکمت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بصیرت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنیوں سے استمداد کے ذریعہ دونوں کے اختلاف کا خاتمہ کردیا۔ یہاں تک کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ ایمان تو یمن والوں کا ہے، ان کے دل نرم ہوتے ہیں اور ان کی طبیعتیں حق کے لیے کھلی ہوئی ہیں:

الایمان یمان والحکمة یمانیة انہم ارقہم قلوباً والینہم عریقة ․

ان اختلافات کے دب جانے کے بعد ہم کو اس حکمت نبوی کی عظمت محسوس ہوتی ہے کہ ایک طرف آپ نے صدیوں سے جاری کشمکش کو یمنیوں اور مضریوں کے درمیان سے ختم کردیا، دوسری طرف آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اوس و خزرج کے درمیان صدیوں سے برپا قبائلی جنگ کی آگ کو بھی دبا کر رکھ دیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بعاث کے شعلوں کو ہمیشہ کے لیے بجھا دیا۔ جنگ بعاث وہ آخری جنگ ہے جو اوس و خزرج کے درمیان ہوئی، جس میں سینکڑوں آدمی قتل ہوئے، اس جنگ کا ایندھن قبائلی عصبیت تھی۔

ایک بار اوس اور خزرج قبائل کے افراد مل جل کر باہم ایک چوپال میں بیٹھے محبت کی باتیں کررہے تھے کہ ادھر سے ایک یہودی جد بن شماس گزرا، اس نے دیکھا کہ اسلام نے کس طرح سے اوس و خزرج کے درمیان اختلافات کو دور کرکے محبت و خلوص کے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ اس بوڑھے یہودی کو حسد ہوا اور اس نے ایک نوجوان یہودی کو وہ نظمیں یاد کرائیں جو بعاث کے جنگ کے بارے میں اوس کے شاعروں اور خزرج کے شاعروں نے کہی تھیں۔ نظم یاد کرانے کے بعد اس نے اس نوجوان کو حکم دیا کہ تم جاؤ اور جاکر اوس و خزرج کے مجمع میں بیٹھ کر انہیں یہ نظم سناؤ۔ اس نے جب ان متاثرانہ نظموں کو سنایا تو اوس و خزرج کے اندر قبائلی جذبات بھڑک اٹھے اور دونوں بولے کہ پھر دو دوہاتھ ہوجائے۔ یہاں تک کہ اسلحہ لیکر دونوں جنگ کے لیے میدان میں پہنچ گئے۔ جب حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ سرعت کے ساتھ میدان جنگ میں پہنچے۔ فریقین کو روکا اور فرمایا کہ:

”میں تمہارے درمیان زندہ موجود ہوں اور تم جاہلیت کی جنگ کرنے جارہے ہو۔“

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر فریقین نے سمجھ لیا کہ یہ شیطانی نرغہ اور یہودیوں کی سازش تھی۔ چنانچہ ان دونوں قبائل نے توبہ کی، ایک دوسرے کے گلے ملے اور محبت کے ساتھ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں واپس آئے۔

اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدینہ کے معاشرہ میں قبائلی عصبیت کی اور نفرت کی کیسی کیسی چنگاریاں پوشیدہ تھیں۔ ان میں سے ہر چنگاری شجر اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے اور خاکستر کرنے کے لیے کافی تھی، لیکن حکمت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کی ژرف نگاہی نے سارے عناصر کو دبارکھا تھا۔ ورنہ یہودیت اور نفاق دو بڑے زہر ناک عناصر تھے۔

ا

عبداللہ بن ابی ابن سلول اپنی دادی کے نام سے معرو ف تھا۔ اس کی دادی کا نام سلول تھا، وہ ابن سلول کہلاتا تھا۔ جنگ بعاث کے بعد اس نے زیادہ اہمیت اختیار کرلی تھی۔ اور اوس و خزرج دونوں نے متفقہ طور پر طے کرلیا تھا کہ عبداللہ بن ابی کو مدینہ کا بادشاہ بنادیا جائے گا۔ اس کو تاج پہنانے کی ساری تیاریاں بھی کرلی گئی تھیں، اس درمیان میں نبوت کی شعاعیں مدینہ میں پڑیں، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ اس وجہ سے صورت حال بدل گئی۔

عبداللہ بن ابی ابن سلول نہایت متمول تھا، بہت خوبصورت اور دل کش شخصیت کا مالک تھا۔ مدینہ میں اس کا طوطی بولتا تھا، وہ قبیلہ خزرج کا سردار تھا، یاد رہے کہ خزرج بڑا قبیلہ تھا اور اوس اس کے مقابلہ میں چھوٹا۔ یہی وجہ ہے کہ اوس نے اپنے افراد کی قلت کے باعث دو یہودی قبائل سے دوستی کررکھی تھی، بن نضیر اور بنی قریظہ سے۔ جب کہ خزرج نے معاہدہ کررکھا تھا بنی قینقاع سے جو نسبتاً چھوٹا قبیلہ تھا۔ اس پس منظر میں تعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے اندر سے کوئی بڑی بغاوت کیوں نہیں کی اور اسلام کو پھیلنے دیا اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت کو بظاہر تسلیم کرلیا۔ مگر خدا کا کرنا کہ خود اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول مخلص مسلمان ہوگیا اور ان کی بیٹی جمیلہ بھی مسلمان ہوگئی تھیں۔ اس کے داماد حنظلہ بن عامر راہب شہید ہوئے اور غسیل ملائکہ کہلائے۔

بہرحال اس نے اپنی تاج پوشی کی تقریب کا انتظار کیا، مگرجب بدر کے موقعہ پر ۲ھء میں اسلام کی کھلی فتح ہوئی اور سارے سرداران مکہ قتل کردئیے گئے تو یہود مدینہ بھی ڈر گئے۔ اس وقت خوف کی وجہ سے اور مسلمانوں کی طاقت بڑھ جانے کی وجہ سے ابن سلول مسلمان ہوگیا،لیکن اس کا اسلام ظاہری تھا، اندر سے کافر تھا۔ نہ صرف یہ کہ منافق تھا بلکہ منافقوں کا سردار بن گیا۔ تین سو منافقین مرد اور ستر عورتیں منافقات ان کی قیادت میں تھیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے اندر اپنا اثر رکھتے تھے اور مسلمان کہلاتے تھے، روزہ نماز کرتے تھے مگر ظاہر میں۔ اندر اندر اسلام کے خلاف سازش میں مشغول تھے، کوئی موقع سازش کا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اس لیے ان سے نپٹنا آسان نہ تھا۔ یہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی ژرف نگاہی، تحمل و بردباری اور اعلیٰ اخلاق کا کرشمہ تھا کہ اس طبقہ کے ساتھ نہایت فاضلانہ اخلاق کا مظاہرہ کیا اور منافقوں کے نہایت رزائل اخلاق کو برداشت کیا۔

جنگوں میں منافقین نہیں جاتے تھے اور جاتے تھے تو فتنہ پھیلایا کرتے تھے۔ عبداللہ بن سلول بھی عام طور سے غزوات میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ ان کی مدینہ میں عظمت اور قبیلہ خزرج میں اہمیت بہت زیادہ تھی۔ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی عزت کرتے تھے۔ خزرجی صحابہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کرتے تھے کہ : یا رسول  صلی اللہ علیہ وسلم اس پررحم کیجئے۔ اس لیے کہ یہ تصور رکھتے ہیں کہ مدینہ میں آپ کی آمد سے ان کی بادشاہت چلی گئی۔ اس لیے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی دل دہی کیا کرتے تھے۔ ورنہ اندیشہ تھا کہ ان کے قتل اور سخت سزا سے اسلام کا اتحاد ختم ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو کبھی کوئی سزا نہیں دی گئی۔ ایک دوسری بات یہ کہ اتنے بڑے سردار کے خلاف گواہی نہ مل سکی۔

غزوئہ بنی المصطلق میں عبداللہ بن ابی ابن سلول شریک تھے۔ پانی کے لیے ایک جہنی صحابی اور مہاجر صحابی میں جھگڑا ہوا، جہنیوں نے انصار کو مدد کے لیے پکارا۔ مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی۔ اس موقع پر ابن سلول نے انصار کو مخاطب کرکے کہا کہ یہ تم سب کا بڑا کارنامہ ہے، تم ان مہاجرین کو اپنے گھر لے آئے، اپنا آدھا مال دے دیا اور ان پر پیسہ خرچ کررہے ہو، میں کہتا ہوں کہ تم ان کی مدد کرنا چھوڑ دو تو یہ سب کہیں اور بھاگ جائیں گے، مدینہ چل کر میں دیکھوں گا کہ عزت والے ذلت والے کو نکال دیں گے۔ اس وقت ایک نوجوان صحابی ارقم بن ارقم موجود تھے، انھوں نے جاکر پورے واقعہ کی اطلاع حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت ایمانی کو جنبش ہوئی، انھوں نے فرمایا: یا رسول اللہ حکم دیجئے کہ میں اس کی گردن قلم کردوں۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔

اس واقعہ کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ایک صحابی نے کہا کہ ابن سلول کو قتل کردینا چاہیے تو دوسرے صحابی جو خزرج کے تھے اور ابن سلول کے ہم قبیلہ تھے بگڑگئے اور بولے کہ تم ابن سلول کو قتل نہیں کرسکتے۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ کو ٹھیک کیا۔ جب ابن سلول کو معلوم ہوا کہ آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے واقعہ کی اطلاع ہوگئی ہے تو وہ سرعت سے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور قسم کھاکہا کہ میں نے کچھ نہیں کہا ہے۔ اس واقعہ کے کچھ دیر بعد سورہ المنافقون نازل ہوئی، جس سے ابن سلول کی جھوٹی قسم واضح ہوئی اور حضرت ارقم بن ارقم کی رپورٹ صحیح ثابت ہوئی۔ حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ارقم کو بلاکر سورہ منافقون سنادی۔ اب خدشہ یہ تھا کہ خزرج اور مہاجرین میں اختلاف نہ شروع ہوجائے، اس لیے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کا حکم دے دیا، حالانکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سفر نہیں کرتے تھے اور پھر پورے دن اورپوری رات سفر کرتے رہے، جب تھک گئے تو صحابہ کرام کو پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا، سارے لوگ سوگئے۔ کسی نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ تو اس وقت سفر نہیں کیا کرتے تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے ابن سلول کی بات نہیں سنی۔ مطلب یہ تھا کہ فتنہ کو روکنے کے لیے یہ کام کیاگیا تھا۔

اسی سفر میں حدیث افق کا واقعہ پیش آیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کسی ضرورت بشری کے تحت لشکرگاہ سے باہر گئی ہوئی تھیں، جس کاعلم کسی کو نہ ہوا۔ جب وہ واپس لوٹنے لگیں تو ان کی نظر اپنے گلے کے ہار پر پڑی جو ٹوٹ کر گرجانے کی وجہ سے نظر نہ آیا۔ وہ ان کو تلاش کرنے میں لگ گئیں اور دیر ہوگئی، ادھر قافلہ اپنی جگہ سے کوچ کرگیا تھا۔ نہ وہاں کوئی آدمی ہے نہ آدم زاد۔ مجبور ہوکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئیں یہاں تک کہ ان کو نیند آگئی۔ حضرت بلال بن امیہ جو قافلہ کے بعد میں آنے والوں میں سے تھے، انھوں نے حضرت عائشہ کو دیکھا کہ سورہی ہیں تو فرمایا: انا للّٰہ و انا الیہ راجعون اس آواز سے حضرت عائشہ کی آنکھ کھل گئی۔ حضرت بلال بن امیہ نے اپنے اونٹ کو بٹھادیا۔ حضرت عائشہ اس پر بیٹھ گئیں، حضرت بلال اونٹ کی مہار پکڑکر آگے چلتے رہے یہاں تک کہ منزل کو آپہنچے۔ ابن سلول نے اس واقعہ کا فائدہ اٹھایا اورحضرت عائشہ پر اتہام لگایا جس میں بعض مخلص مسلمان بھی اپنی سادہ لوحی کی بناپر منافقین کے ہمنوا ہوگئے۔ ان میں حضرت حسان بن ثابت انصاری، حضرت حمنہ بنت جحش اور حضرت اُماسہ بنت مسطحہ بھی شریک تھے۔ صحیح صورت حال کی وضاحت پر قرآن کی سورہ ”سورہ نور“ نازل ہوئی اور اسے اتہام قرار دیا گیا۔ چنانچہ مذکورہ تینوں حضرات کو اسّی اسّی کوڑے لگائے گئے۔ مگر عبداللہ بن ابی بن سلول سے کوئی باز پرس نہ کی گئی اور نہ انہیں کوئی سزا دی گئی۔ ادھر حضرت عائشہ کو جب معلوم ہوا کہ اللہ نے میری برأت کے لیے پوری سورہ نازل فرمادی ہے تو وہ بہت خوش ہوئیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔

ابن سلول کی مدینہ میں اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے لیے مسجد نبوی میں منبر کے قریب ایک ممتاز جگہ بنادی گئی تھی۔ اس ممتاز جگہ سے وہ لوگوں کو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کی دعوت دیا کرتا تھا۔ لیکن غزوئہ احد کا موقع آیا اور اس منافق کے مشورے کو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم نہیں کیا، اس لیے کہ صحابہ کی اکثریت چاہتی تھی کہ شہر مدینہ سے نکل کر جنگ کی جائے۔ اس لیے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکلنے کافیصلہ کرلیا، حالانکہ خود حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کی تھی۔ بہر حال حضور  صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز پڑھ کر تیار ہوکر نکلے اورمدینہ کے باہر رات گزاری۔ ابن سلول منافق بھی حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکلا، اس کے ساتھ ان کے تین سو متبعین بھی تیار ہوکر جنگ کے لیے برآمد ہوئے۔ جب صبح ہوئی اور حضور  صلی اللہ علیہ وسلم احد کے میدان کے لیے چلے جہاں کفار پہلے سے موجود تھے تواس عین موقع پر ابن سلول نے خود بھی اور اس کے متبعین نے مسلمانوں سے علیحدگی اختیار کی اور لوٹ کر مدینہ چلے آئے۔ ابن سلول نے کہا کہ محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری مخالفت کی اور لونڈوں کا کہنا مان لیا، اگر ہم کو معلوم ہوتا کہ یہ واقعی جنگ ہے تو ہم ضرور شریک ہوتے۔

منافقین بلکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کے اس رویہ سے کئی سوالات پیدا ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب ابن سلول باہر نکل کر جنگ کرنے کا مخالف تھا تو پھر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلح ہوکر گھر سے کیوں نکلا اور پھر ساتھ رات بھی گزاری؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام ایک سازش کے مطابق کیاگیا تھا، مقصد یہ تھا کہ عین جنگ کے موقع پر ایک تہائی تعداد کو دشمن کے سامنے سے نکال لیا جائے تاکہ ایک طرف مسلمانوں کی ہمتیں ٹوٹ جائیں اور کفار کی ہمتیں بڑھ جائیں۔ اس کے تین سو آدمی مدینہ لوٹ آئے۔

ایسے سخت منافق کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول نہایت سچے پکے اور کٹر مسلمان تھے۔ انھوں نے جب سنا کہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم ابن سلول کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو وہ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے یا رسول اللہ میں اپنے باپ کا نہایت فرماں دار ہوں لیکن اگر کسی نے میرے والد کو

بموں کی ماں میں ہے کتنا دم

ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺑﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﺘﻨﺎ ﺩﻡ ﮨﮯ؟
14 ﺍﭘﺮﻳﻞ 2017
ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﻏﯿﺮ ﺟﻮﮨﺮﯼ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺫﺧﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺑﻢ ﺟﯽ ﺑﯽ ﯾﻮ /43 ﺑﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﻮ ' ﻣﺪﺭ ﺁﻑ ﺁﻝ ﺑﻮﻣﺒﺰ ' ‏( Mother of All Bombs ‏) ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺍﻣﺮﯾﮑﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺑﻢ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ 13 ﺍﭘﺮﯾﻞ ﮐﻮ ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻧﻨﮕﺮﮨﺎﺭ ﺻﻮﺑﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻡ ﻧﮩﺎﺩ ﺩﻭﻟﺖ ﺍﺳﻼﻣﯿﮧ ﮐﮯ ﭨﮭﮑﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺑﻢ ﮐﺎ ﺧﻮﻝ ﻧﺴﺒﺘﺎً ﭘﺘﻼ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﺑﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺪﻑ ﺗﮏ ﺟﯽ ﭘﯽ ﺍﯾﺲ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻭﺯﻥ 21 ﮨﺰﺍﺭ ﭘﺎﺅﻧﮉ ﮨﮯ۔
11 ﺳﺘﻤﺒﺮ 2007 ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺳﯽ ﻓﻮﺝ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ' ﻓﺎﺩﺭ ﺁﻑ ﺁﻝ ﺑﻮﻣﺒﺰ ' ﮐﺎ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺭﻭﺳﯽ ﻓﻮﺝ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺑﻢ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺟﯽ ﺑﯽ ﯾﻮ /43 ﺑﯽ ﺳﮯ ﭼﺎﺭ ﮔﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﮨﮯ۔
ﺍﻃﻼﻋﺎﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺭﻭﺳﯽ ﺑﻢ ﻣﯿﮟ 7.8 ﭨﻦ ﺗﮭﺮﻣﻮﺑﯿﺮﮎ ﺁﺗﺶ ﮔﯿﺮ ﻣﺎﺩﮦ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺟﯽ ﺑﯽ ﯾﻮ /43 ﺑﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﭨﮫ ﭨﻦ ﮨﮯ۔ ﺭﻭﺳﯽ ﺑﻢ ﭘﮭﭩﻨﮯ ﭘﺮ 44 ﭨﻦ ﭨﯽ ﺍﯾﻦ ﭨﯽ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﮐﺎ ﺩﮬﻤﺎﮐﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺑﻢ ﮐﮯ ﺑﻼﺳﭧ ﮐﺎ ﻗﻄﺮ 300 ﻣﯿﭩﺮ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺑﻢ ﺳﮯ ﺩﮔﻨﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﺑﻢ ﮔﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻣﺮﮐﺰ ﭘﺮ ﺩﺭﺟﮧ ﺣﺮﺍﺭﺕ ﺑﮭﯽ ﺍﻣﺮﯾﮑﯽ ﺑﻢ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺑﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﮯ۔
ﺟﯽ ﺑﯽ ﯾﻮ /43 ﺑﯽ ﮔﺎﺋﯿﮉﮈ ﺑﻢ ﮨﮯ ﺟﺲ ﭘﺮ 18 ﮨﺰﺍﺭ 700 ﭘﺎﺅﻧﮉ ﮐﺎ ﻭﺍﺭ ﮨﯿﮉ ﻧﺼﺐ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﯽ ﺑﯽ ﯾﻮ /43 ﺑﯽ ﮈﯾﺰﯼ ﮐﭩﺮ ﺑﻢ ﮐﯽ ﺟﺪﯾﺪ ﺷﮑﻞ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺑﻢ ﻋﺮﺍﻕ ﮐﯽ ﺟﻨﮓ ﺳﮯ ﻧﻮ ﮨﻔﺘﮧ ﻗﺒﻞ ﺟﻠﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻋﺮﺍﻕ ﮐﯽ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔
ﯾﮧ ﺑﻢ ﺯﯾﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﺗﻨﺼﯿﺒﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﻧﮕﯿﮟ ﺗﺒﺎﮦ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺑﻢ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ 16 ﻻﮐﮫ ﮈﺍﻟﺮ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺗﺠﺮﺑﮧ 2003 ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺟﯽ ﺑﯽ ﯾﻮ /43 ﺑﯽ ﮐﻮ ﺳﯽ 130 ﺳﮯ ﭘﯿﺮﺍﺷﻮﭦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺮﺍﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔

مصیبت میں دوسروں کی مدد کریں یہ آپ پر بھی آ سکتی ہے

ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻞ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﮭﺎﻧﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﺴﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﯾﮏ ﮈﺑﮧ ﮐﮭﻮﻝ ﺭﮨﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮈﺑﮯ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﺎ ﺩﺍﻧﯽ ﻧﮑﻠﺘﯽ ﮨﮯ، ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﭘﮩﻠﮯ ﮈﯾﺮﮮ ﭘﺮ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ، ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﻣﺮ ﻏﯽ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻭ ﮐﺴﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﺎ ﺩﺍﻧﯽ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ، ﻣﺮﻏﯽ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻨﮓ ﻣﺖ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﻼ ﮐﯿﺎ ﻟﯿﻨﺎ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ؟ ﻭﮦ ﺑﯿﭽﺎﺭﮦ ﺩﻧﺒﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻭ ﮐﺴﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﺎ ﺩﺍﻧﯽ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﺭ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ۔ ﺩ ﻧﺒﮧ ﺑﮭﯽ ﺁﮔﮯ ﺳﮯ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺑﻮﻟﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ، ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮨﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺧﻮﺩ ﺳﻠﺠﮭﺎﺅ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﮨﯿﮟ۔ ﭼﻮﮨﺎ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﻠﯿﺰ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻭ ﮐﺴﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻧﯽ ﻟﮯ ﺁﺋﮯ ﺍﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﺭ ﮈﺍﻟﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﻓﺎﻟﺘﻮ ﻭﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﺧﻮﺩ ﺣﻞ ﮐﺮﻧﺎ ﺳﯿﮑﮭﻮ۔ ﻭﮦ ﺑﯿﭽﺎﺭﮦ ﺭﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺲ ﮐﺮ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﭼﻮﮨﮯ ﺩﺍﻧﯽ ﮐﮯ ﮐﮭﮍﺍﮎ ﮐﯽ ﺯﻭﺭﺩﺍﺭ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ، ﮐﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﭼﮭﻼﻧﮕﯿﮟ ﻟﮕﺎﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ، ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﮮ ﺯﮨﺮﯾﻠﮯ ﻧﺎﮒ ﮐﯽ ﺩﻡ ﺍﮌ ﮔﺌﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﺎﮒ ﺳﮑﺘﯽ، ﻧﺎﮒ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮈﺱ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﮐﺴﺎﻥ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ، ﺗﻮ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﮨﺴﭙﺘﺎﻝ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ، ﻭﺍﭘﺴﯽ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﯾﺨﻨﯽ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﻮ ﺯﺑﺢ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ، ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﻣﺰﯾﺪ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﯿﻤﺎﺭﺩﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮩﺖ ﻟﻮﮒ ﺁﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺗﻮﺍﺯﮦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺩ ﻧﺒﮧ ﺑﮭﯽ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﭻ ﭘﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﮯ ﭼﻞ ﺑﺴﺘﯽ ﮨﮯ، ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﻟﻮﮒ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻭﮦ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﭘﺮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺎﺋﮯ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺁﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﭼﻮﮨﺎ ﺑﭻ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻥ ﺳﺐ ﮐﻮ ﮐﮩﻨﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﮨﺎ ﺩﺍﻧﯽ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﮯ، ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺑﻮﻻ ﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻣﺪﺩ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻭﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﻮ ﻧﻈﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﺖ ﮐﺮﻭ، ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﮐﺎﯾﺎ ﭘﻠﭩﺘﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﻗﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺘﺎ۔۔۔۔ﺳﻤﺎﺝ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻋﻀﻮ، ﺍﯾﮏ ﻃﺒﻘﮧ، ﺍﯾﮏ ﺷﮩﺮﯼ ﺧﻄﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﻣﻠﮏ ﺧﻄﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ۔۔۔۔ﺫﺍﺕ، ﻣﺬﮨﺐ ﺍﻭﺭ ﻃﺒﻘﮯ ﮐﮯ ﺩﺍﺋﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﻜﻠﻴﮯ - ﺧﻮﺩ ﺗﮏ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﻣﺖ ﺭﮨﯿﮯ - ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮐﯿﺠﺌﯿﮯ۔ ﭘﮍﻭﺱ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﯽ ﺍٓﮒ ﺍٓﭘﮑﮯ ﮔﮭﺮ ﺗﮏ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﻨﭻ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ

افواہ پھیلانے پر بوڑھے کا نوجوان کو سبق آموز نصیحت

ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺍٓﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺗﮑﺮﺍﺭ ﮨﻮﮔﺌﯽ ‘ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﺤﺚ ﻣﺒﺎﺣﺜﮧ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ‘ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺍٓﺩﻣﯽ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﺗﮭﺎ ‘ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﺑﺪﻟﮧ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﮧ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﺎﺭ ﭘﯿﭧ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺣﻞ ﻧﮑﺎﻻ ‘ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻧﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ” ﺍﻓﻮﺍﮦ “ ﭘﮭﯿﻼﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ ﮐﮧ ﻭﮦ ” ﭼﻮﺭ “ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﮨﺮ ﺭﮨﮕﺰﺭ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ ‘ ﮐﺌﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺳﻨﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﭼﻨﺪ ﻟﻮﮒ ﯾﻘﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﮔﺰﺭﮮ ﺗﻮ ﭘﺎﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﭼﻮﺭﯼ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺷﮏ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﮯ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﭼﻨﺪ ﮨﯽ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺻﻞ ﭼﻮﺭ ﮐﺎ ﭘﺘﺎ ﻟﮕﻨﮯ ﭘﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﻮ ﺭﮨﺎﺋﯽ ﻣﻞ ﮔﺌﯽ۔ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺳﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺍٓﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﮧ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﻮ ﭘﻨﭽﺎﺋﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ‘ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻧﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺟﻮ ﺍﻓﻮﺍﮦ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻼﺋﯽ ﮨﮯ ‘ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﮧ ﻟﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﺮﮐﮯ ﭼﻮﺭﺍﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﮯ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺍﮌﺍ ﺩﮮ ‘ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺑﻮﮌﮬﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺑﺠﺎ ﻟﯿﺎ ‘ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺍﮌﺍ ﺩﯾﮯ۔ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ ﭘﻨﭽﺎﺋﯿﺖ ﻟﮕﯽ ‘ ﺳﺒﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﺋﮯ ‘ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻧﮯ ﺭﺣﻢ ﮐﯽ ﺍﺳﺘﺪﻋﺎ ﮐﯽ ‘ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺳﺰﺍ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﮮ ﭨﮑﮍﮮ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﮐﮯ ﻻﺋﮯ ﺟﻮ ﮐﻞ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺍﮌﺍ ﺩﯾﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﮯ ﺑﻮﻻ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ‘ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺍﻓﻮﺍﮦ ﭘﮭﯿﻼﺋﯽ ‘ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﮧ ﺍﻓﻮﺍﮦ ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﮨﻮﮔﯽ ‘ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﻻ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﻓﻮﺍﮦ ﮐﯿﺴﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﻻﻭ ¿ ﮔﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺑﺪﻧﺎﻡ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ‘ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻧﮯ ﻧﺪﺍﻣﺖ ﺳﮯ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ۔ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﮨﻢ ﺑﻨﺎ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮞﺎﻓﻮﺍﮨﯿﮟ ﭘﮭﯿﻼﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﻨﺎ ﺳﻮﭼﮯ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﭘﮧ ﮐﺘﻨﺎ ﺍﺛﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﺷﺎﺋﺪ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ‘ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ۔

پاکستان کا ایٹم بم بناتے وقت Centrifuge کے پنکھے کا مسلہ کیسے حل ہوا

1972 میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام منیر احمد خان کی سربراہی میں شروع ہوا اور پہلا کام پاکستانی سائندانوں نے ایٹمی ایندھن کی تیاری کیلئے  کارآمد  تابکار مواد بنانے والی مشین Gas centrifuge  پر تحقیق کا شروع کیا.
یہ مشین مدھانی کے اصول پہ کام کرتی ہے اور جیسے مدھانی دودھ میں سے مکھن نکالتی ہے.  Gas Centrifuge تابکار مواد کو انتہاہی تیزی سے گول سلنڈر کے اندر گھما کر,  کار آمد اور غیر کارآمد ایٹموں کو الگ کرتی ہے. مشین جتنا تیز گھومے گی اتنا اچھا کام کرے گی.
اچھی بات یہ ہوئ کہ ایک پاکستانی سائنسدان جی . اے . عالم نے اپنے طور پہ 1975 میں  Gas Centrifuge بنا کہ تیس ہزار چکر فی منٹ پہ گھمائ.  موصوف نے پہلے کبھی یہ مشین نہ دیکھی تھی , صرف اپنی کتابی معومات پہ اتنی پیچیدہ مشین بنا کہ کامیابی سے چلائ . اس معرکہ سے سال پہلے  1974 میں خلیل قریشی نامی پاکستانی ریاضی دان نے Gas Centrifuge کے مکمل ریاضی کلیہ کا حساب لگا کر  پاکستان اٹمک انرجی کمیشن کو دیا تھا 1975 میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں شمولیت اختیار کی.
اسی سال انھوں نے جی. اے . عالم سے ملاقات کی اور ان کی بنائ ہوئ Gas Centrifuge دیکھی.
پاکستان آنے سے پہلے ڈاکٹر عبداقدیر نے ہالینڈ کی کمپنی URENCO میں کام کیا تھا.  URENCO کمپنی آج بھی موجود ہے اور دنیا بھر کے ایٹمی بجلی گھروں کو اپنے Gas Centrifuge میں ایٹمی ایندھن بنا کر فراہم کرتی ہے . ڈاکٹر عبدالقدیر نے اُن کی Gas Centrifuge پہ مزید تحقیق کر کہ کارکردگی مزید بہتر کی تھی اور یہی تجربہ لے کر پاکستان آئے.
جی- اے - عالم کا ڈیزائن کام تو کرتا تھا مگر فی منٹ 30 ہزار چکر کم تھے اور اس رفتار سے ایٹمی ایندھن بنانے میں بہت طویل عرصہ لگنا تھا .
ساتھ ہی ریاضی دان خلیل قریشی کی کیلکولیشن راہنمائ کے لیئے موجود تھیں اور اسے دیکھتے ہوئے حساب لگایا گیا کہ Gas Centrifuge کو کم از کم 6o ہزار RPM پہ گھمانا ہوگا.
تجربات کیئے گئے اور جب بھی Gas Centrifuge  مشین کے اندرونی پنکھوں کو زیادہ تیز گھمایا جاتا,  مشین ٹوٹ پھوٹ جاتی. جیسے کچی روٹی کو تیز گھمایا جائے تو پہلے اس کی گولائ بڑھتی ہے اور پھر ٹوٹ پھوٹ کہ بکھر جاتی ہے.  60 ہزار چکر فی منٹ پہ پاکستانی Gas Centrifuge کے اندرونی پنکھوں کا یہی حال ہوتا.
پاکستان کے تمام بڑے سائنسدان سر جوڑ کہ بیٹھے اور مسئلہ کا حل تلاش کیا.  کئی طرح کے حساب لگائے گئے اور سب اس بات پہ متفق ہوئے کہ المونیم دھات کا جو مرکب Alloy پنکھے بنانے میں استعمال ہورہا ہے وہ کمزور ہے اور نیا مرکب.Alloy  بنانا ہوگا.
کئی مہینوں کی جدوجہد کے بعد ایک نیا المونیم مرکب بنایا گیا جو حساب کے مطابق پنکھے کی شکل میں ڈھال کر  ایک منٹ میں  60 ہزار بار گول گھمایا جائے تو نھیں ٹوٹے گا.
نئی Gas Centrifuge بنائ گئ جس کےاندر کے پنکھے اس نئے المونیم مرکب سے بنائے گئے اور جب تجرباتی طور پہ مشین چلائ گئی تو کچھ دنوں تک تو کچھ نہ ہوا,  مگر کچھ دن مسلسل چلنے کے بعد یہ مشین بھی پہلے والے ڈیزائن کی طرح زور برداشت نہ کر پائ اور ٹوٹ پھوٹ گئی.
سب سائنسدان حیران رہ گئے,  حساب کے مطابق ایسا ہونا ممکن نہ تھا.
ڈاکٹر عبدالقدیر خان جو خود دھاتوں کے ماہر Metallurgist تھے وہ بھی حیران رہ گئے کہ اتنی مظبوط دھات کیسے ٹوٹ گئ اور سائنسدانوں کا ہنگامی اجلاس بلایا. مسئلہ وقت کا تھا.  بھارت 1974 میں ایٹمی سھماکے کر چکا تھا اور اس کے سال بعد کوشش کے باوجود ہماری ایٹمی ایندھن بنانے والی Gas Centrifuge کو مسائل درپیش تھے.  مسئلہ جلد حل کرنے والا تھا.  اجلاس میں پاکستانی ریاضی دان,  دھاتوں کے ماہر اور ایٹمی سائنسدان سب شریک تھے اور سب نے مشین کے نقشے,  کیلکولیشن ,دھاتی مرکب,  ہر چیز کا جائزہ لیا مگر مسئلہ کا حل سمجھ نہ آیا. اجلاس میں موجود چند افراد نے ایک عجیب بات کہ ڈالی.  پہلے مثال دی کہ جس طرح لا علاج مریض کو جب ڈاکٹر کے پاس سے دوائ نھیں ملتی تو وہ, حکیم,نجومی,عامل,  کسی کے پاس بھی جانے سے گریز نھیں کرتا, اس امید پہ کہ شاید کہیں سے حل نکل آئے.  چونکہ اس وقت ہمارے پاس بھی اس مسئلہ کا حل موجود نھیں.  نکال تو لیں گے مگر وقت لگے گا اور وقت ہمارے پاس ہے نھیں, کوئ پتہ نھیں کب بھارت ایٹم بم بنا کر ہمارے پہ برسا رہا ہو.
نیا اور غیر معمولی قدم اٹھاتے ہیں. ہمیں گجرانوالہ کے ایک لوہار کا پتہ ہے جو جدی پشتی لوہار ہے اور دھات کے ہر کام میں ماہر ہے, ڈھلائ, خراد یا دھات کا کوئ بھی کام ہو اس لوہار سے ماہر بندہ ہم نے نھیں دیکھا.  چلتے ہیں اس کے پاس,  شاید وہ کوئ حل بتا دے ؟
کچھ تزبزب کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ رازداری رکھتے ہوئے ڈاکٹر قدیر اور چند اور سائنسدان خود لوہار کے پاس جائیں گے .
اگلے دن ڈاکٹر عبدالقدیر چند اور ساتھیوں کو لے کر گجرانوالہ پہنچے.  پاکستان ٹامک انرجی کمیشن کی گاڑی ایک پرانی سی ورکشاپ کے سامنے رکی.  اندر ایک پچاس پچپن سال کا لوہار اپنی بھٹی کے سامنے بیٹھا گرم دھات کے ٹکڑے پہ ہتھوڑے چلا رہا تھا.
ڈاکٹر عبدالقدیر ساتھیوں کے ہمراہ اندر گئے اور لوہار کا کام ختم ہونے کا انتظار کیا.  جب لوہار فارغ ہوا تو پہلا سوال کیا " صاحب کیا درانتیاں بنوانے آئے ہو؟" فصلوں کی کٹائ ہونے والی ہے آج کل ہم درانتیاں خوب بیچ رہے ہیں.  ڈاکٹر قدیر نے اپنا تعارف کرایا جو اسے کچھ سمجھ نہ آیا,  نہ تو اسے اٹامک انرجی کمیشن کا پتہ تھا کہ کیا چیز ہےاور نہ ہی ایٹمی پروگرام کا.  کہنے لگا  , صاحب مسئلہ بتاؤ,  بس اتنی مجھے سمجھ آئ کہ آپ کوئ مشین بنانا چاہتے ہیں.
ڈاکٹر قدیر نے آسان الفاظ میں اسے سمجھایا کہ ہم ایک پنکھا بنانا چاہتے ہیں,  جو ہلکا ہو اور تیز گھومے,  لوہار نے پوچھا,  "جیسا کچھ گاڑیوں کے انجن میں لگا ہوتا ہے"؟ وہ میں نے ایک گاہک کے لیئے بنائے تھے,  ڈھلائ بھی خود کی تھی اور دھات بھی خود تیار کی تھی اور انجن میں لگائے بھی تھے, میرا پنکھا آج بھی چلتا ہے.  ڈاکٹر قدیر سمجھ گئے کہ Turbo Charger کی بات کر رہا ہے,  جس میں پنکھا لگتا ہے جو منٹ میں ایک لاکھ بار گھومتا ہے مگر چند منٹوں کیلیئے. Gas Centrifuge کے پنکھے اسی رفتار پہ کئی مہینے مسلسل گھومتے ہیں.
بہر حال ڈاکٹر قدیر کو سمجھ آگئی کہ بندہ کام کا ہے اور ملتا جلتا تجربہ بھی رکھتا ہے.
لوہار نے مزید تفصیل پوچھی جو اسے بتائ گئی.  لوہار تھوڑا,سوچ کہ بولا کہ مجھے اپنی بھٹی پہ لے جاؤ جہاں آپ پنکھا بناتے ہو,  مسئلہ میں وہاں سمجھوں گا اور امید ہے حل بھی بتا دوں گا.  لوہار کو اسی دن اٹامک انرجی کمیشن کی ورکشاپ لایا گیا جدھر Foundry تھی اور دھات پگھلا کر سانچوں میں ڈھالنے کا کام ہوتا تھا.
لوہار نے کہا اسے پہلے بنائے گئے پنکھے دکھائے جائیں.  ایک نمونہ اسے دیا گیا.  لوہار نے نمونے کو غور سے دیکھا پھر ہتھوڑی سے ہلکا سا ٹھوکا اور آواز سنی,  پھر کئی بار ایسا کیا. اور ہلکا سا مسکرایا. بولا,  صاحب مسئلہ مجھے سمجھ آگیا,  اب آپ میرے سامنے ایک پنکھے کی اسی طرح سانچے میں ڈھلائ کریں  جیسے آپ کرتے ہیں. شام کا وقت ہو چکا تھا اور عملہ کو اپنے اپنے گھروں کو جانا تھا مگر اس دلچسپ صورتحال کو دیکھنے عملہ رک گیا اور ورکشاپ میں ایک چھوٹا سا ہجوم لگ گیا, جس میں نئے انجینیئر بھی شامل تھے اور پرانے بھی.
دھاتی مرکب کو بھٹی میں ڈال کر پگھلایا گیا اور لوہار کے سامنے سانچے میں ڈالا گیا. لوہار کھڑا دیکھتا رہا,  پھر بولا,  صاحب مسئلہ یہ ہے کہ آپ سانچے میں دھات بہت آہستہ ڈال رہے ہو,  ہو یہ رہا ہے کہ سانچے میں پہلے جانے والی پگھلی دھات ٹھنڈی ہو جا رہی ہے اور پیچھے آنے والی نسبتاً گرم دھات اس کے ساتھ جُڑ نھیں پا رہی. اور آپ کا پنکھا اسی لیئے کمزور بن رہا ہے, اس کی مثال ایسی ہے کہ مٹی کا برتن بناتے وقت کمہار گیلی مٹی اور خشک مٹی کو ملا کر برتن بنائے.  مٹی آپس میں ٹھیک نہ جڑ پائے گی اور برتن کمزور بنے گا. پھر لوہار نے کہا,  آپ سانچہ میں ڈھلائ تیز کرو,  مسئلہ حل ہو جائے گا,  پنکھے کی "ٹن کی آواز" سن کر ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کا اندرونی ڈھانچہ (crystal structure ) درست نھیں. پگھلی دھات سانچہ میں تیزی سے ڈالو,  تمام دھات ایک درجہ حرارت پہ ہوگی اور ساتھ ٹھنڈی ہو کہ آپس میں مضبوط جڑے گی.
ڈاکٹر عبدالقدیر اور وہاں موجود تمام انجنئر لوہار کا طریقہ کار اور مہارت دیکھ کر حیران رہ گئے.
اس رات لوہار کو مناسب معاوضہ دے کر واپس اس کے گھر چھوڑ دیا گیا.
اگلے دن Flow Rate کا دوبارہ سے حساب لگایا گیا اور جیسا لوہار نے کہا تھا,  اس کیکولیشن میں غلطیاں پائ گئیں.
دھات کی ڈھلائی کی رفتار کا نئے سرے سے تعین کیا گیا اور پھر تیز ڈھلائ سے بنے پنکھے جب چلائے گئے تو پہلے 60 ہزار چکر فی منٹ پہ کئی دن گھمائے گئے,  پھر مشین سے نکال کہ لیبارٹری میں جانچے گئے اور پنکھے بہترین شکل میں تھے اور کسی قسم کے نقصان یا ٹوٹ پھوٹ کے شواہد نہ ملے.
ڈاکٹر عبدالقدیر نے پنکھے کی مضبوطی دیکھتے ہوئے مشین کی رفتار اور تیز کرنے کا فیصلہ کیا اور پنکھے 80 ہزار چکر فی منٹ پہ گھمائے گئے. پھر لیبارٹری میں تجزیہ ہوا اور 80 ہزار RPM پہ بھی پنکھے بغیر نقصان کے چلتے رہے. اور یوں پاکستان کی پہلی Gas Centrifuge کا حتمی نقشہ بنا کر بڑے پیمانے پہ پیداوار شروع ہوئی. اس مشین کا سرکاری نام Pakistan -1 یا P-1 تھا مگر اٹامک انرجی کمیشن کے  چند نوجوان انجنئروں نے لوہار کی یاد میں اس مشین کو " بابے کی مشین " کہا.
ایک ہنر مند کے تجربہ نے مشین کی تیاری میں کئی مہینے کا وقت بچا دیا.
سن 1978 میں پاکستان کا ایٹمی ایندھن بنانے کا کارخانہ مکمل اور بڑے پیمانے پہ کام کرنا شروع ہو گیا,  اور قطار در قطار, ہزاروِ کی تعداد میں کھڑی "بابے کی مشینیں" اکہا.
ایک ہنر مند کے تجربہ نے مشین کی تیاری میں کئی مہینے کا وقت بچا دیا.
سن 1978 میں پاکستان کا ایٹمی ایندھن بنانے کا کارخانہ مکمل اور بڑے پیمانے پہ کام کرنا شروع ہو گیا,  اور قطار در قطار, ہزاروِ کی تعداد میں کھڑی "بابے کی مشینیں" افزودہ یورانیم اگلنے لگیں.
اس پاکستانی Gas Centrifuge کے ڈیزائن میں بعد کے سالوں میں مزید بہتری لا کہ رفتار اور بڑھائ گئی اور آج کی P-4 Gas Centrifuge دو لاکھ چکر فی منٹ پہ گھومتے ہیں.
پاکستان کے تجربہ کار ہنرمندوں کو اہم دفاعی منصوبوں میں شامل کر ان کے جدی پشتی علم سے مستفیض ہونے کی روایت جاری رہی.
مائع ایندھن سے چلنے والے غوری میزائل بنانے کے بعد جب ٹھوس ایندھن والے شاھین میزائل بنانے کی ضرورت پڑی تو بھی یہی فیصلہ کیا گیا کہ نئے سرے سے تحقیق کے بجائے,  مختلف پرزے بنابے میں عوام میں موجود تجربہ کار مستری, لوہار, ویلڈر اور دیگر کاریگروں سے مدد لی جائے.
اس حکمت عملی کی وجہ سے شاھین میزائل انتہائ کم وقت اور کم لاگت میں بنا..ا