Wednesday 29 March 2017

قیامت کن لوگوں پر قائم ہو گی ؟

ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﮨﻢ ﺍﮐﺜﺮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﻗﺎﺋﻢ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﯽ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺍﺳﻼﻡ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﮨﻢ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮﮔﯽ ﺟﺐ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ " ﻻﺍﻟﮧ ﺍﻻﺍﻟﻠﮧ " ﮐﮩﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ،ﺗﻮ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻄﺒﯿﻖ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺻﻮﺭﺕ ﮨﻮﮔﯽ؟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ، ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻗﻮﻝ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﯿﮟ .. ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍٓﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﻗﺎﺋﻢ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﯽ ﺟﺐ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽٰ ﺑﻦ ﻣﺮﯾﻢ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻧﺎﺯﻝ ﮨﻮﮐﺮ ﺩﺟﺎﻝ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ .. ﺍٓﭖ ﺧﻨﺰﯾﺮ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ .. ﺻﻠﯿﺐ ﮐﻮ ﺗﻮﮌﯾﮟ ﮔﮯ .. ﻣﺎﻝ ﮐﯽ ﻓﺮﺍﻭﺍﻧﯽ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﺰﯾﮧ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺳﻼﻡ ﯾﺎ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ .. ﺍﻥ ﮐﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺩﯾﮕﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺩﯾﺎﻥ ﮐﻮ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ .. ﺍﻭﺭ ﺳﺠﺪﮦ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺣﺪﮦ ﮨﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﮔﺎ،ﺍﺱ ﺳﮯ ﻭﺍﺿﺢ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﭘﮭﯿﻞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ .. ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﯾﻦ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ ﮔﺎﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍٓﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍٓﻟﮧ ﻭﺍﺻﺤﺎﺑﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﻣﺘﻮﺍﺗﺮ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﺳﮯ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺑﺪﺗﺮﯾﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﭘﺮ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮﮔﯽ ،ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﯿﺴﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﯽ ﻭﻓﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﮯ ﻣﻐﺮﺏ ﺳﮯ ﻃﻠﻮﻉ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﭘﺎﮎ ﮨﻮﺍ ﺑﮭﺠﮯ ﮔﺎ ﺟﻮ ﮨﺮ ﻣﻮﻣﻦ ﻣﺮﺩ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﮐﻮ ﻗﺒﺾ ﮐﺮﮮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﺪﺗﺮﯾﻦ ﻗﺴﻢ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﭘﺮ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﻗﺎﺋﻢ ﮨﻮﮔﯽ !! ’’ ﺷﯿﺦ ﺍﺑﻦ ﺑﺎﺯ ﺭﺣﻤﮧ ﺍﻟﻠﮧ

Tuesday 28 March 2017

االلّٰہ تتعالیٰ سے عشق کی انتہا

ﺑﻐﺪﺍﺩﮐﮯ ﺑﺎﺯﺍﺭﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺣﻠﻮﺍﺋﯽ ﺻﺒﺢ ﺻﺒﺢ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﮐﺎ ﻥ ﺳﺠﺎﺭﮨﺎﺗﮭﺎﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻓﻘﯿﺮﺍٓﻧﮑﻼﺗﻮﺩﮐﺎﻧﺪﺍﺭﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﺑﺎﺑﺎﺟﯽ ﺍٓﺋﻮﺑﯿﭩﮭﻮﻓﻘﯿﺮﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎﺣﻠﻮﺍﺋﯽ ﻧﮯ ﮔﺮﻡ ﮔﺮﻡ ﺩﻭﺩﮪ ﻓﻘﯿﺮﮐﻮﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎﻓﻘﯿﺮﻧﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﯽ ﮐﺮﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎﺷﮑﺮﺍﺩﺍﮐﯿﺎﺍﻭﺭﺍﺱ ﺣﻠﻮﺍﺋﯽ ﮐﻮﮐﮩﺎﮐﮧ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺗﯿﺮﺍﺷﮑﺮﯾﮧ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮﻓﻘﯿﺮﭼﻞ ﭘﮍﺍ۔ﺑﺎﺯﺍﺭﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻓﺎﺣﺸﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﯿﮍﮬﯿﻮﮞ ﭘﺮﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﻣﻮﺳﻢ ﮐﺎﻟﻄﻒ ﻟﮯ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ﮨﻠﮑﯽ ﮨﻠﮑﯽ ﺑﻮﻧﺪﺍﺑﺎﻧﺪﯼ ﮨﻮﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﺎﺯﺍﺭﻣﯿﮟ ﮐﯿﭽﮍ ﺗﮭﺎ،ﻓﻘﯿﺮﺍﭘﻨﯽ ﻣﻮﺝ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺯﺍﺭﺳﮯ ﮔﺰﺭﺭﮨﺎﺗﮭﺎﮐﮧ ﻓﻘﯿﺮﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﯿﻨﭩﺎﺍﮌﺍﺍﻭﺭﻓﺎﺣﺸﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﻟﺒﺎﺱ ﭘﺮﮔﺮﮔﯿﺎ۔ﺟﺐ ﯾﮧ ﻣﻨﻈﺮﻓﺎﺣﺸﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎﺗﻮﺍﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﻏﺼﮧ ﺍٓﯾﺎ۔ﺍﭨﮭﺎﺍﻭﺭﻓﻘﯿﺮﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﭘﺮﺗﮭﭙﮍ ﻣﺎﺭﺍﺍﻭﺭﮐﮩﺎﻓﻘﯿﺮﺑﻨﮯ ﭘﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﭼﻠﻨﮯ ﭘﮭﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻤﯿﺰ ﻧﮩﯿﮞﻔﻘﯿﺮﻧﮯﮨﻨﺲ ﮐﺮﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎﺍﻭﺭﮐﮩﺎﻣﺎﻟﮏ ﺗﻮﺑﮭﯽ ﺑﮍﺍﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﮨﮯﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﭘﻠﻮﺍﺗﺎﮨﮯ ﺍﻭﺭﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﺗﮭﭙﮍ ﻣﺮﻭﺍﺗﺎﮨﮯﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮﻓﻘﯿﺮﺍٓﮔﮯ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ،ﻓﺎﺣﺸﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﭼﮭﺖ ﭘﺮﺟﺎﺭﮨﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮﺍﺱ ﮐﺎﭘﺎﺋﻮﮞ ﭘﮭﺴﻠﺘﺎﮨﮯﺍﻭﺭﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮﺳﺮﮐﮯ ﺑﻞ ﮔﺮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﻮﺍﯾﺴﯽ ﺷﺪﯾﺪﭼﻮﭦ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯﮐﮧ ﻣﻮﻗﻊ ﭘﺮﮨﯽ ﻓﻮﺕ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔ﺷﻮﺭﻣﭻ ﮔﯿﺎﮐﮧ ﻓﻘﯿﺮﻧﮯ ﺍٓﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﻨﮧ ﮐﺮﮐﮯ ﺑﺪﻋﺎﺩﯼ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺟﺎﻥ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﻓﻘﯿﺮﺍﺑﮭﯽ ﺑﺎﺯﺍﺭﮐﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮﻧﮯ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﭘﺎﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﻘﯿﺮﮐﻮﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎﺍﻭﺭﮐﮩﺎﮐﮧ ﻓﻘﯿﺮﺑﻨﮯ ﭘﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺣﻮﺻﻠﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﻮﻓﻘﯿﺮﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﮐﯿﺎﮨﻮﺍﻣﯿﺎﮞﻠﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺑﺪﺩﻋﺎﺩﯼ ﺍﻭﺭﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﺟﺎﻥ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﻓﻘﯿﺮﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﻭﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻮﮐﻮﺋﯽ ﺑﺪﺩﻋﺎﻧﮩﯿﮟ ﺩﯼ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺿﺪﮐﯽ ﺍﻭﺭﮐﮩﺎﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﺑﺪﺩﻋﺎﮐﺎﮐﯿﺎﺩﮬﺮﺍﮨﮯ۔ﺟﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺿﺪﮐﯽ ﺗﻮﻓﻘﯿﺮﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﺍﺻﻞ ﺑﺎﺕ ﭘﻮﭼﮭﺘﮯﮨﻮﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺪﺩﻋﺎﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﯾﮧ ﯾﺎﺭﻭﮞ ﯾﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﮨﮯﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ۔ﻓﻘﯿﺮﻧﮯ ﮐﮩﺎﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﺭﮨﺎﺗﮭﺎﺍﻭﺭﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺋﻮﮞ ﺳﮯ ﭼﮭﯿﻨﭩﺎﺍﮌﺍﺍﻭﺭﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﻟﺒﺎﺱ ﭘﺮﭘﮍﺍﺗﻮﺍﺱ ﮐﮯ ﯾﺎﺭﮐﻮﻏﺼﮧ ﺍٓﯾﺎﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﺭﺍﺗﻮﭘﮭﺮﻣﯿﺮﮮ ﯾﺎﺭﮐﻮﺑﮭﯽ ﻏﺼﮧ ﺍٓﮔﯿﺎ

بیتے وقتوں کی بیتاب باتیں


اُس دور میں ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکر اپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا، اور اگر بتاتا تھا تو باپ اُسے ایک اور تھپڑ رسید کردیتا تھا ....!!

یہ وہ دور تھا جب ”اکیڈمی“کا کوئی تصور نہ تھا، ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ہوتے تھے .....!!

بڑے بھائیوں کے کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی.......!!۔

لڑائی کے موقع پر کوئی ہتھیار نہیں نکالتا تھا، صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ ” میں تمہارے ابا جی سے شکایت کروں گا ،،۔ یہ سنتے ہی اکثر مخالف فریق کا خون خشک ہوجاتا تھا۔......!!

اُس وقت کے اباجی بھی کمال کے تھے، صبح سویرے فجر کے وقت کڑکدار آواز میں سب کو نماز کے لیے اٹھا دیا کرتے تھے۔بے طلب عبادتیں ہر گھرکا معمول تھیں۔......!!

کسی گھر میں مہمان آجاتا تو اِردگرد کے ہمسائے حسرت بھری نظروں سے اُس گھر کودیکھنے لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ ” مہمانوں “ کو ہمارے گھر بھی لے کرآئیں۔جس گھر میں مہمان آتا تھا وہاں پیٹی میں رکھے، فینائل کی خوشبو میںلبے بستر نکالے جاتے ، خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکئے رکھے جاتے ، مہمان کے لیے دھلا ہوا تولیہ لٹکایا جاتااورغسل خانے میں نئے صابن کی ٹکیا رکھی جاتی تھی.....!!

جس دن مہمان نے رخصت ہونا ہوتا تھا، سارے گھر والوں کی آنکھوں میں اداسی کے آنسو ہوتے تھے، مہمان جاتے ہوئے کسی چھوٹے بچے کو دس روپے کا نوٹ پکڑانے کی کوشش کرتا تو پورا گھر اس پر احتجاج کرتے ہوئے نوٹ واپس کرنے میں لگ جاتا ، تاہم مہمان بہرصورت یہ نوٹ دے کر ہی جاتا۔۔.......!!

شادی بیاہوں میں سارا محلہ شریک ہوتا تھا، شادی غمی میں آنے جانے کے لیے ایک جوڑا کپڑوں کا علیحدہ سے رکھا جاتا تھا جو اِسی موقع پر استعمال میں لایا جاتا تھا، جس گھر میں شادی ہوتی تھی اُن کے مہمان اکثر محلے کے دیگر گھروں میں ٹھہرائے جاتے تھے، محلے کی جس لڑکی کی شادی ہوتی تھی بعد میں پورا محلہ باری باری میاں بیوی کی دعوت کرتا تھا۔.......!!

سب غریب تھے، سب خوشحال تھے، کسی کسی گھر میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتا تھا اور سارے محلے کے بچے وہیں جاکر ڈرامے دیکھتے تھے۔دوکاندار کو کھوٹا سکا چلا دینا ہی سب سے بڑا فراڈ ہوتا تھا ۔‬

....کاش پھر وہ دن لوٹ آئیں.....

Sunday 26 March 2017

چور کی داڑھی میں تنکا ۔یہ کہاوت کہاں سے شروع ہوئی

ایک دن بادشاہ نے بیربل کو بےوقوف بنانے کا ارادہ کیا۔ اور اس نے ایک درباری کو اپنی انگوٹھی دے دی۔ اور کہا کہ جب بیربل دربار میں آئے تو خاموش رہے۔ دربار میں بیربل کو بادشاہ نے مخاطب کر کے کہا کہ آج میرے غسل کرنے کے دوران میری انگوٹھی گم ہو گئی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ میرے درباریوں میں سے کسی ایک نے وہ انگوٹھی چرائی ہے۔ بادشاہ نے بیربل سے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ تم اچھے نجومی ہو۔ اب یہ تمھاری ذمہ داری ہے کہ چور کو تلاش کرو۔ کیونکہ میری وہ انگوٹھی بہت بیش قیمتی ہے۔ بیربل نے بادشاہ سے استفسارکیا کہ انہوں نے غسل کے لئے جانے کے پہلے انگوٹھی کہاں رکھی تھی؟ بادشاہ نے ایک الماری کی طرف اشارہ کیا۔ اورکہا کہ یہاں ۔ بیربل اس الماری کے قریب گیا اور اپنے کان اس الماری کے ساتھ لگا دئے۔جیسے وہ کچھ سن رہا ہو۔ کچھ دیر کے بعد اس نے کہا کہ۔ "الماری نے مجھے کہا ہے کہ انگوٹھی اس شخص نے چرائی ہے جس کی داڑھی میں تنکا ہے" اس درباری نے جس کے پاس انگوٹھی تھی۔ اس نے جب یہ سنا تو بے ساختہ اس کا اپنا ہاتھ داڑھی کا معائنہ کرنے کے لئے اپنی داڑھی پر پھیرا۔ بیربل نے درباری کے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے دیکھا تو اسے فوراً ہی بادشاہ کے سامنے حاضر کر دیا اور کہا کہ "مہاراج چور حاضر ہے""اکبر بادشاہ اور بیربل کی داستانیں" سے اقتباس

ایسی تحریر جو ہر شخص کو لازماً پڑھنی چاہیے


والد کی قدر کریں ۔۔۔۔ایک دل کو چھو لینے والی تحریر




ﺑﺎﭖ ﻋﺎﻟﯿﺸﺎﻥ ﻣﻨﺼﺐ ﭘﺮ ﻓﺎﺋﺰ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﯿﺸﺎﻥ ﺩﻓﺘﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ، ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮭﺮﯼ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﺩﻝ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﭽﻼ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ ﻓﺨﺮ ﺳﮯ ﻣﻐﻠﻮﺏ ﮨﻮ ﮐﺮ، ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ:
ﺑﯿﭩﮯ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮ، ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﺷﺨﺺ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟
ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺟﮭﭧ ﺳﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ: ﻣﯿﮟ۔

ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﻟﮕﺎ، ﺗﺎئید ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ:
ﺑﯿﭩﮯ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﺷﺨﺺ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟
ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﯿﺴﯽ ﻣﺘﺎﻧﺖ ﺍﻭﺭ ﺳﮑﻮﻥ ﺳﮯ ﺩﮬﯿﻤﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ: "ﻣﯿﮟ"

ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﻣﺘﻐﯿﺮ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﺻﺪﻣﮯ ﺳﮯ ﺩﻝ ﺑُﺠﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﻟﮩﺮﺍ ﮔﺌﮯ۔ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﺳﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺍُﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻗﺪﻡ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﺌﮯ۔
ﺩﻓﺘﺮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﺭُﮐﺎ، ﻣُﮍ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ:
ﺑﯿﭩﮯ، ﺍﺱ ﺩُﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﺷﺨﺺ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟
ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﺴﯽ ﺗﻮﻗﻒ ﮐﮯ ﮐﮩﺎ:
"ﺁﭖ"

ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎﺀ نہ ﺭﮨﯽ، ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺑﺪﻟﺘﯽ ﺳﻮﭺ ﭘﺮ ﺑﮩﺖ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﺍ، ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﻗﺪﻡ ﻭﺍﭘﺲ ﻣﮍ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﺁ ﮐﺮ ﺁﮨﺴﺘﮕﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ:
ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﻟﮯ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ، ﯾﮧ ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﮐﯿﺴﯽ؟
ﺑﯿﭩﮯ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ:
ﺟﺐ آﭖ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﻨﺪﮬﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺩنیا ﮐﺎ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﺷﺨﺺ ﺗﮭﺎ، ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺟﺐ ﺁﭖ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺍُﭨﮫ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﻨﮩﺎ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﺷﺨﺺ آﭖ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔

■ﺩﯾﮑﮭﯿﺌﮯ! ﺍﮔﺮ ﺑﺎﭖ ﺑﻘﯿﺪ ﺣﯿﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺯﻣﯿﻦ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ، ﺻﺤﺖ ﻭ ﺗﻨﺪﺭﺳﺘﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ، ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻭﻟﺘﻤﻨﺪﯼ ﯾﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻘﯿﺮﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ، ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻃﺎﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﺠﺎﺀ ﮐﯽ ﺳﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﻦ ﻭ ﺍﻣﺎﻥ ﮐﺎ ﺿﺎﻣﻦ ﮨﮯ۔

●ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮨﻮ ﺍﻥ ﺧﻮﺵ ﻗﺴﻤﺘﻮﮞ ﮐﻮ، ﺟﻦ ﮐﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍُﻥ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ۔

●ﻭﺍﻟﺪ ﮐﯽ ﻗﺪﺭ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ، ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﭼﮭﺎﺅﮞ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮫﮐﯿﻠﺌﮯ

غرور کس بات کا تکبر کس بات پر


جب کبھی بڑی بڑی گاڑیوں سے تفاخر سے گردن اکڑائے لوگوں کو باہر نکلتے دیکھتا ہوں،
یا مونچھوں کو بل دیتے ، پگڑی کے پیچ ٹھیک سے جماتے کسی وڈیرے یا چوہدری کو دیکھتا ہوں
یا کسی کو اپنے نام کے ساتھ فخر سے الحاج، علامہ، ڈاکٹر ،  پروفیسر ، یا دیگر القابات لگائے دیکھتا ہوں ،،،،،،
تو سوچتا ہوں کیوں نہ میں بھی کسی بات پر فخر کروں۔
آخر کچھ تو ہو جس پر میں بھی گردن اکڑا کر چلوں۔
لیکن پتہ نہیں کیا ماجرا ہے میں جب حسب و نسب پہ فخر کرنے کا سوچتا ہوں تو نوح کے بیٹے کا ڈوبنا یاد آجاتا ہے۔
اگر میں مال و اسباب پہ نازاں ہونے کا سوچوں تو قارون کا زمین میں غرق ہونا یاد آجاتا ہے۔
اگر میں علم و فن و عبادات پہ فخر کرنے کا سوچوں تو ابلیس کا دھتکارا جانا یاد آجاتا ہے۔۔۔۔
ایسے میں کانوں میں ایک آواز گونجتی ہے۔

فَاِنَّا خَلَقنٰکُم مّن تُرَابٍ ثمَّ مِن نُّطفۃٍ۔۔۔۔۔۔…
(الحج، ۵ )
'👈'پس ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے۔۔۔۔۔''

اس آواز کے ساتھ ہی میری سب سوچیں سلب ہو جاتی ہیں۔ سب کچھ بےمایا و بے وقعت لگنے لگتا ہے۔ دماغ سے غرور و تکبر کاخیال ہوا ہو جاتا ہے اور شدت سے اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے۔
پھر سوچتا ہوں میرا رب کتنا کریم ہے کہ
جس نے مجھے میری اوقات سے بڑھ کر نوازا،
علم و شعور عطا کیا،
میرے عیبوں کی پردہ پوشی کی،
مجھے وہ بھی عطا کیا جس سے میں واقف بھی نہ تھا۔
یہ خیال آتے ہے میں اپنی پیشانی زمین پر ٹکا کر اس کی عظمت و بڑائی اور اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتا ہوں۔

فالحمد لله أولاً وآخرا

زمزم کا سائنسی تجزیہ

آب زم زم کا سراغ لگانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی عالمی تحقیقی ادارے آب زم زم اور اسکے کنویں کی پر اسراریت اور قدرتی ٹیکنالوجی کی تہہ تک پہنچنے میں ناکام ہو کر رہ گئے۔ مزید نئے روشن پہلوؤں کے انکشافات سامنے آ گئے۔ تفصیلات کے مطابق آب زم زم اور اسکے کنویں کی پر اسراریت پر تحقیق کرنے والے عالمی ادارے اسکی قدرتی ٹیکنالوجی کی تہہ تک پہنچنے میں ناکام ہو کر رہ گئے۔ عالمی تحقیقی ادارے کئی دہائیوں سے اس بات کا کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ آب زم زم میں پائے جانے والے خواص کی کیا وجوہات ہیں اور ایک منٹ میں 720لیٹر جبکہ ایک گھنٹے میں43ہزار 2سو لیٹر پانی فراہم کرنے والے اس کنویں میں پانی کہاں سے آ رہا ہے ۔ جبکہ مکہ شہر کی زمین میں سینکڑوں فٹ گہرائی کے باوجود پانی موجود نہیں ہے۔ جاپانی تحقیقاتی ادارے ہیڈو انسٹیٹیوٹ نے اپنی تحقیقی میں کہا ہے کہ اب زم زم ایک قطرہ پانی میں شامل ہو جائے تو اس کے خواص بھی وہی ہو جاتے ہیں جو آب زم زم کے ہیں جبکہ زم زم کے ایک قطرے کا بلور دنیا کے کسی بھی خطے کے پانی میں پائے جانے والے بلور سے مشابہت نہیں رکھتا۔ ایک اور انکشاف یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ری سائیکلنگ سے بھی زم زم کے خواص میں تبدیلی نہیں لائی جا سکتی۔ آب زم زم میں معدنیات کے تناسب کا ملی گرام فی لیٹر جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ اس میں سوڈیم133، کیلشیم96، پوٹاشیم43.3، بائی کاربونیٹ195.4کلورائیڈ163.3، فلورائیڈ0.72، نائیٹریٹ124.8 اور سلفیٹ 124ملی گرام فی لیٹر موجود ہے۔ آب زم زم کے کنویں کی مکمل گہرائی99فٹ ہے اور اس کے چشموں سے کنویں کی تہہ تک کا فاصلہ 17میٹر ہے۔ واضح رہے کہ دنیا کے تقریباً تمام کنوؤں میں کائی کا جم جانا، انواع و اقسام کی جڑی بوٹیوں اور خود رو بودوں کا اگ آنا نباتاتی اور حیاتیاتی افزائش یا مختلف اقسام کے حشرات کا پیدا ہو جانا ایک عام سی بات ہے جس سے پانی رنگ اور ذائقہ بدل جاتا ہے اللہ کا کرشمہ ہے کہ اس کنویں میں نہ کائی جمتی ہے نہ نباتاتی و حیاتیاتی افزائش ہوتی ہے نہ رنگ تبدیل ہوتا ہے نہ ذائقہ۔

گناہ مخلوق سے تو چھپ سکتے ہیں لیکن خالق سے نہیں

ایک شخص تھا جو بڑا امیر کبیر تھا ، بہت بڑا اس کا کاروبار تھا ، جس میں درجنوں ملامین تھے، اس کا گھر بھی کافی بڑا تھا اس میں بھی نوکر چاکر کام کرتے تھے ، دن بھر وہ اپنے بزنس میں مصروف رہتا ، شام کو گھر واپس آتا، اس کا جو اپنا بیڈروم تھا وہ ایک جوان العمر لڑکی کی صفائی کرتی تھی ، ایک دن وہ اتفاق سے وقت سے پہلے گھر آگیا جب یہ اپنے کمرے میں آیا اور نوجوان لڑکی کو صفائی کرتے ہوئے دیکھا ، بس شیطان نے اس کے دل میں خیال ڈالا کہ میں اس لڑکی کو روک لوں تو اس کی آواز کوئی بھی نہیں سنے گا ۔ اگر یہ میری کسی سے شکایت بھی کرے گی تو کوئی اس کی بات کو نہیں مانے گا ۔ میں پورے پولیس اسٹیشن کو خرید سکتا ہوں ، ملازمین سب میری بات مانیں گے ۔ لڑکی نے دیکھا کہ مالک وقت سے پہلے آگئے ہیں تو جلدی سے جانا چاہا تو مالک نے فوراً ایک زور دار آواز میں کہا ٹھہر جائو۔ وہ مالک کے تیور دیکھ کر گھبرا گئی ، مالک نے کہا سب کھڑکیا ں دروازے بند کر دو۔ اب لڑکی پریشان کہ میں کروں تو کیا کروں لیکن اس کے دل میں تقوی تھا اللہ کا خوف تھا ۔ آنسوں بہنے لگے اور وہ اللہ سے دعا بھی کر رہی تھی ، چنانچہ اس نے ایک ایک کر کے سب کھڑکیاں دروازے بند کرنا شروع کر دیئے ، کافی دیر ہو گئی لیکن وہ واپس نہیں آرہی تھی ، مالک نے ڈانٹ کر کہا کتنی دیر ہو گئی اب تک دروازے کھڑکیاں بند نہیں کیے اور تو میرے پاس آتی نہیں ؟ تو لڑکی نے روتے ہوئے کہا ماملک میں سارے دروازے بند کر دیئے ہیں ساری کھڑکیاں بند کر دی مگر ایک کھڑکی کو بہت دیر سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن سے مجھ سے بند نہیں ہو پار رہی ہے۔ تو اس غصے سے کہا وہ کونسی کھڑکی ہے جو تجھ سے بند نہیں ہو رہی ؟ لڑکی نے جواب دیا میرے مالک جس کھڑکیوں سے انسان دیکھتے ہیں جن کھڑکیوں سے مخلوق دیکھتی ہے میں نے وہ ساری کھڑکیاں بند کر دیں جس کھڑکی سے رب العالمین دیکھتا ہے اس کھڑکی کو بہت دیر سے بند کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن مجھ سے بند نہیں ہو پارہی ہے اگر آپ سے بند ہو سکتی ہے تو آکر بند کر دیں ۔ فوراً بات سمجھ میں آگئی کہ واقعی میں اپنے گناہوں کو انسانوں سے چھپا سکتا ہوں لیکن رب العالمین سے نہیں چھپا سکتا وہ اٹھا جلدی سے وضو کیا نماز پڑھی اور اللہ پاک سے معافی مانگنا شروع کر دیا ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اے اللہ ہمیں ہر برائی سے بچنے کی توفیق عطا فرما (آمین )

گدھے کا گوشت کھانے سے اپنے آپ کو بچائیں

ملک میں گدھوں کے گوشت کی فروخت کی کہانیاں آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں لیکن عام شہریوں کو یہ معلوم نہیں کہ وہ مٹن خرید رہے ہیں یا مردار جانور کا گوشت نوش کرنے جارہے ہیں ۔محکمہ لائیوسٹاک کے ذرائع نے بتایاکہ مٹن اور بیف کے ریشے ذرا سخت ہوتے ہیں ،گوشت کا ایک بڑا ٹکڑاپکڑیں ، اس کو ہتھیلی پر بالکل سیدھا رکھیں اور اگرنہ گرے تو سمجھ لیں کہ حلال گوشت ہے لیکن اگر گر جائے تو کچھ گڑبڑہے کیونکہ گدھے کے گوشت کے ریشے بہت نرم ہوتے ہیں ۔ گدھے کے گوشت کا رنگ گہرا جامنی ہوتا ہے ، ہڈیاں بکرے سے مختلف اور گوشت میں ہلکی مٹھاس ہوتی ہے ۔دوسری طرف نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے محسن بھٹی نے بتایاکہ لاہورمیں ایسی بہت سی جگہیں ہیں جہاں منوں کے حساب سے گدھوں کا گوشت فروخت ہوتا ہے،لاہوراور ملتان میں 100من تک گدھے کا قیمہ ہوتاہے۔اُن کاکہناتھاکہ گجرپورہ کے علاقے سے پکڑے گئے قصائی سے پوچھ گچھ کی تو انکشاف ہواکہ بکرمنڈی میں ہی اس کا حرام گوشت کا سٹال ہے اور لاہور کے تمام قصائیوں کو اس بات کا علم ہے لیکن سستا ہونے اور ناجائز منافع خوری کی وجہ سے وہ بھی حرام گوشت کو ترجیح دیتے ہیں ، مٹن کے نعم البدل کے طورپر گدھے کا گوشت بیچ دیتے ہیں ۔ ملزم نے بتایاتھاکہ متعلقہ لائیوسٹاک افسر بھی ملوث ہے جو منتھلی وصول کرتاہے جبکہ یہی قصائی کئی مرتبہ اُسی آفیسر کے گھر بھی گدھے کاگوشت پہنچاچکاہے ۔محسن بھٹی نے بتایاکہ حرام گوشت کی روک تھام کیلئے پنجاب گورنمٹ قانون لا رہی ہے کہ 5لاکھ روپے جرمانہ اور 8سال ناقابل ضمانت قید ہو گی۔

خدارا !!اپنے ماں باپ کو کبھی نہ ستائو

ایک آدمی اپنی بیوی کیساتھ دوکان میں داخل ہُوا ۔۔ اور پیچھے اسکی بوڑھی ماں داخل ہُوئی ۔۔ جس کی گود میں اسکا چھوٹا سا بچہ تھا ۔۔ اور اس کی بیوی نے اپنی پسند كي جیولری وغیرہ خریدی ۔۔ آدمی نے کاونٹر مین سے پوچھا ٹوٹل کتنا رقم بنا ؟؟ ۔۔ " بیس ھزار ایک سو ریال " آدمی نے پوچھا " یہ سو ریال کہاں سے آ ٹپکا " ؟؟ ۔۔ ہم نے تو صرف بیس ہزار ریال کی خریداری کی تھی ۔۔ یہ سو ریال کہاں سے آگیا ؟؟ " آپکی والدہ نے بھی سو ریال کی انگوٹھی لی ہے " ۔ ۔کہاں ہے وہ انگوٹھی ؟؟ ۔۔ " یہ رہی وہ انگوٹھی " یہ ہے ؟؟۔۔ بیٹے نے انگوٹھی سیل مین کے منہ پر پھینکتے ہُوئے کہا " بوڑھی عورتوں کیساتھ سونا چاندی کا کیا تعلق " جب اس کی ماں نے یہ سارى باتیں سُنی ۔۔ تو وہ روتی ہُوئی گاڑی کیطرف نکل گئیں ۔۔ بیوی نے کہا : اوئے یہ کیا کیا تم نے ؟؟ ہوسکتا ہے ۔۔ آج کے بعد وہ تیرے بیٹے کو نہ سنبھالیں ۔۔ ] گویا کہ ماں نوکرانی ہو [ ۔۔ جب سیل مین نے اسکی سرزنش کی ۔۔ تو آدمی والدہ کومنانے چلا گیا ۔۔ " آپ چاہتی ہے ۔۔ تو انگوٹھی لے لیں ۔۔ کوئی ایسی بات نہیں " ماں بولی : '' مجھے کسی بھی سونا چاندی کی کوئی خواہش نہیں ۔۔ لیکن میں دوسرے لوگوں کیطرح عید پے خوش ہونا چاہ رہی تھی ۔۔ اللہ تجھے معاف کردے ۔۔ تم نے میری خوشی چھین لی" مسلمانو !!!! آج ہمیں کیا ہوگیا ہے ؟؟ اس ماں کو ستانے نکلے ہیں ۔۔ جس نے ہماری حمل سے لیکر دودھ چھڑانے تک ۳۰ ماہ تک حفاظت کیں ؟؟ بیوی کو اس ماں پر فوقیت دیتی ہو ۔۔ جس نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر آپ کو جنا ؟؟ جس نے میٹھی نیندیں قربان کرکے آپ کی سکھ کو سب کچھ جانا ۔۔ آپ کو آج معمولی خوشی نصیب ہونے پر انکی قربانیاں بھول جاتے ہو ؟؟کیا یہ انصاف ہے ؟؟ کیا جواب ہے آپ کے پاس رب کو دینے کے لئے ؟؟؟ کیا آپ نے وہ آیتیں نہیں سنی ۔۔ نہیں پڑھی ۔۔ جس میں رب تعالی نے اپنے بعد والدین کو درجہ دیا ؟؟؟ جن کو " اُف " تک کہنے کی اجازت نہیں، آج ہم کہاں نکل گئے ؟؟ ۔۔ سرزمین عرب کی سچی کہانی ۔۔ اگر آپ میں سے کسی کے ماں باپ ناراض ہیں ۔۔ تو خُدارا اُن کو منائیں ۔۔ ورنہ رب کائنات کی قسم !! دین و دُنیا کی ٹھوکریں آپ کا نصیب بنےگی ۔۔ چاہے آپ کتنے ہی پرہیزگار و متقی کیوں نہ ہو ۔۔ برائے مہربانی اِس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شئیر کرلیں ۔۔ ہوسکتا ہے ۔۔ کِسی بٹھکے کو راہ نجات مِل جائے ۔۔ نو ماہ تک پیٹ میں رکھنے والی کے ساتھ ایسا گھٹیا سلوک،،؟

حضرت یونس ؑمچھلی کے پیٹ میں کیسے زندہ رہے۔۔۔۔۔۔سائنسی دلیل

جناب انتظام اللہ شہابی کی کتاب ’’جغرافیہ قرآن‘‘ میں حضرت یونس علیہ السلام بن متی کو حضرت یوسف علیہ السلام کے چھوٹے بھائی بن یامین کا سبط (نواسہ) لکھا ہے۔ اسی کتاب میں ’’مسلم راج پوت گزٹ‘‘ ۸۲۹۱ء کے حوالے سے لکھا ہے کہ ڈاکٹر امروز جان ولسن، فیلو، کوئنز کالج آکسفورڈ(Dr. Imroz John Wilson, Fellow, Queen’s College Oxford)نے حضرت یونس علیہ السلام کے مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہنے کے بارے میں ایک مقالہ تھیولوجیکل ریویو میں تحریر کیا ہے، جس میں وہ لکھتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں سانس لینے کے لئے کافی آکسیجن ہوتی ہے۔ اس کے پیٹ کا درجہ حرارت ۴۰۱ ڈگری فارن ہائیٹ ہوتا ہے جو انسان کے لئے بخار کا درجہ ہے۔ ۰۹۸۱ء میں ایک جہاز فاک لینڈ (Falkland) کے قریب وہیل مچھلی کا شکار کر رہا تھا کہ اس کا ایک شکاری جیمس سمندر میں گر پڑا اور وہیل مچھلی نے اسے نگل لیا۔ بڑی کوشش سے دو روز بعد یہ مچھلی پکڑلی گئی۔ اس کا پیٹ چاک کیا گیا تو شکاری زندہ نکلا، البتہ اس کا جسم مچھلی کی اندرونی تپش کی وجہ سے سفید ہوگیا تھا۔ چودہ دن کے علاج کے بعد بالآخر وہ صحت یاب ہوگیا۔۸۵۹۱ء ’’ستارہ مشرق‘‘ نامی جہاز فاک لینڈ میں وہیل مچھلیوں کا شکار کررہا تھا اس کا ’’بار کلے‘‘ نامی ملاح سمندر میں گرا، جسے ایک مچھلی نے نگل لیا۔ اتفاق سے وہ مچھلی پکڑی گئی۔ پورا عملہ اسے کلہاڑیوں سے کاٹنے لگا۔ دوسرے دن بھی یہ کام جاری تھا کہ مردہ مچھلی کے پیٹ میں حرکت محسوس ہوئی۔ انہوں نے سمجھا کہ کوئی زندہ مچھلی نگلی ہوئی ہوگی۔ پیٹ چیرا تو اس میں سے ان کا ساتھی بارکلے نکلا جو تیل اور چربی میں لتھڑا ہوا تھا۔ بے ہوش بارکلے دو ہفتوں کے علاج سے ہوش میں آیا اور پھر صحت مند ہوگیا۔ اس نے اپنی بپتا سنائی ’’جب میں سمندر میں گرا تو میں نے پانی میں ایک شدید سرسراہٹ محسوس کی جو ایک وہیل مچھلی کی دم سے پیدا ہورہی تھی۔ میں بے اختیار اس کی طرف کھنچا جارہا تھا۔ اچانک مجھے ایک تہ بہ تہ تاریکی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب میں نے اپنے آپ کو ایک نرم مگر تنگ راستے سے گزرتا ہوا محسوس کیا، یہاں حد درجہ پھسلن تھی۔کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ میں ایک وسیع تر جگہ میں ہوں۔ اردگرد نرم، گداز اور چکنی دیواریں کھڑی تھیں، جنہیں ہاتھ سے چھوا۔ اب حقیقت کھلی کہ میں وہیل کے پیٹ میں ہوں۔میں نے خوف کی جگہ اطمینان حاصل کرنے کی کوشش کی۔ موت کو لبیک کہنے کو تیار ہونے لگا۔یہاں روشنی بالکل نہ تھی البتہ سانس لے سکتا تھا۔ سانس لینے پر ہر بار ایک عجیب سی حرارت میرے اندر دوڑ جاتی تھی۔ آہستہ آہستہ کمزور ہوتا چلا گیا۔ اپنے آپ کو بیمار محسوس کرنے لگا۔ میری بیماری ماحول کی خاموشی تھی۔ اس کے بعد کیا ہوا مجھے کچھ معلوم نہیں۔ اب جو میں نے آنکھیں کھولیں تو اپنے آپ کو جہاز کے کپتان کے کمرے میں پایا۔ بارکلے کو ہسپتال میں داخل کردیا گیا جہاں وہ مکمل صحت یاب ہوگیا۔ یہ خبر اخبارات میں شائع ہوئی تو علم اور سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ کئی نامہ نگاروں نے انٹرویو لیا۔ ایک مشہور سائنسی جرنل کے ایڈیٹر مسٹر ایم ڈی پاول نے تحقیقِ احوال کے بعد واقعہ کی تصدیق کی اور لکھا ’’اس حقیقت کے منکشف ہوجانے پر میں تسلیم کرتا ہوں کہ حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق آسمانی کتابوں میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے، وہ حرف بہ حرف صحیح ہے اور اس میں شک کرنا ایک زندہ حقیقت کو جھٹلانے کے برابر ہے۔

مسلمان بھائیو !!یہ تفرقہ بازی یہودیوں کی سازش ہے اس کو دل سے مٹا دیں

صلاح الدین ایوبی کے دور میں صلیبی جنگوں کے دوران مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے اور مسلمان نوجوانوں کو جہاد سے متنفر کرنے کیلئے یہود و نصاریٰ کی سازشوں کے انکشافات سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ اس دور میں خوبصورت یہودی لڑکیاں، نشہ آور اشیا اور متنازع دینی مسائل پر جعلی فقہا اور رہنمائوں کے ذریعے مسلمانوں پر غلبے کی کوششیں کی گئیں توساتھ ساتھ جنگی محاذ پر بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا مگر اللہ کی نصرت اور فتح سے مسلمانوں نے اپنے یقین محکم اور جذبہ جہاد سے نہ صرف بیت المقدس فتح کیا بلکہ سرزمین عرب پر یہود و نصاریٰ کی حکومت کے خواب کو چکنا چور کر دیا۔ اس دور میں یہود و نصاریٰ کی مسلمانوں اور جہاد کے خلاف سازشوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے مسلمانوں کے وسائل پر قبضے کیلئے ’’عرب اسپرنگ‘‘ کے نام سے شروع ہونے والی خانہ جنگی کی سازش اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی، صدام حسین، معمر قذافی جیسے مطلق العنان ڈکٹیٹر ز بھی اسی سازش کی بھینٹ چڑھا دئیے گئے اور ان کے خلاف عراق اور لیبیا کے نوجوانوں کے ہی بازو استعمال ہوئے۔یہود و نصاریٰ کی مسلمانوں کے وسائل پر قبضے کی کوششیں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ، ٹیکنالوجی اور ذرائع ابلاغ کے دور میں ان سازشوں سے وقتاََ فوقتاََ پردہ اٹھتا رہتا ہے ، گزشتہ چند سالوں سے یہودی جاسوسوں کے ایک اسلامی مدرسے کا انکشاف گاہے بگاہے سامنے آتا رہا ہے کہ کیسے اس میں یہودی نوجوانوں اور بچوں کو دین اسلام کا تشخص مسخ کرنے اور مسلمان نوجوانوں کو بھٹکانےکی تربیت دی جارہی ہے۔ درج ذیل واقعہ میں اسی مدرسےسے متعلق ایک واقعہ تحریر کیا جا رہا ہے جو مسلمانوں کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہے۔یہ واقعہ برطانیہ میںمقیم ایک مسلمان شخص کا ہے جو بتاتا ہے کہ میں نے اپنے انگریز گہرے دوست سے کہا مجھے یہاں کوئی عجیب جگہ دکھاو جہاں ہم پکنک پرجائیں گے۔ اسنے کہا ٹھیک ہے پھرچھٹیوں میں پکنک جانے کاپروگرام بنا۔میرے انگریز دوست نے میرے اور اپنے لیے اس مقام میں داخلے کا اجازت نامہ حاصل کر لیا تھااور میں بھی وہاں جانے کیلئے بہت پرجوش تھا کیونکہ میرے انگریز دوست کے مطابق وہ جگہ ہی ایسی پراسرار تھی۔مقررہ دن ہم دونوں دوست اپنی گاڑی پرایک طویل سفر کےبعدایک جنگل میں پہنچ چکے تھے۔ وہاں میں نے فوجی چھائونی جیسے آثار محسوس کئے کیونکہ جگہ جگہ ہماری چیکنگ کی گئی اوراجازت نامہ دیکھا گیا۔ بالاخر ایک جگہ پر پہنچ کر ہماری گاڑی رک گئی ،میرے انگریزدوست نے مجھےبتایا ہمیں اب اپنی گاڑی چھوڑنی پڑے گی کیونکہ اس سے آگے ہمیں فوجی گاڑیوں پر مطلوبہ جگہ تک جاناہوگا اور ایک اور چیز کا بہت زیادہ خیال رکھنا کہ وہاں کچھ بھی سوالات نہیں کرنے بس خاموشی سے دیکھ کرآگے بڑھناہے۔ہم دونوں فوجی گاڑیوں میں سوار ہو گئے ، ہمارے علاوہ اور لوگ بھی تھے جنہیں فوجی گاڑیوں میں سوار کیا گیا تھا۔انـٹری گیٹ عبور کر کے ہم گاڑی سے اتر کرجب اندر داخل ہوئے۔ توبہت ہی بڑی حویلی نـظر آئی جو کہ کسی یونیورسٹی کی عمارت کی طرح لگ رہی تھی ۔ پیدل چلتے ہوئے ایک میدان عبور کرکے ہم ایک بڑی عمارت میں داخل ہو گئے جہاں بڑی بڑی کلاسز میں چھوٹی بڑی عمرکے طلباء قرآن پاک حفظ کررہےتھے۔ اور کہیں عربی زبان سکھائی جارہی تھی۔ اور کہیں تفاسیرپڑھائی جارہی تھی کہیں احادیث اور کہیں فقہی مسائل پرگفتگوتھی الغرض یہ تمام کلاسز دین اسلام پڑھانے کیلئے مختص تھیں۔ واپسی پر فوجی گاڑیوں میں بیٹھ کر ہم اس جگہ سے باہر آئے اور فوجی چوکیوں کوکراس کرکے اپنی گاڑی میں سوار ہو کر اس جنگ سے باہر نکل آئے تواس میں نے اپنے انگریز دوست سے کہا۔’’ یہ کیاعجوبہ دکھایا میراوقت برباد کردیا میں تو کسی تفریحی مقام کی سوچ کے آیاتھا اگر یہی شدت پسند اور قدامت پسند لوگ دیکھنے ہوتے تو یہ توکسی بھی اسلامی ملک میں قریہ قریہ بستی اورشہربھرے پڑےہیں میں وہاں دیکھ لیتا‘‘۔میرا انگریز دوست میری جانب دیکھ کر مسکرارہا تھا، چند لمحے تک اس کے چہرے پر نہایت پراسرار مسکراہٹ قائم رہی پھر وہ گویا ہوا۔’’ یہ عجوبہ ہی ہے، کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہاں آنے سے قبل میری اور تمہاری ہر طرح سے جاسوسی کی گئی اور مکمل یقین اور اعتماد آ جانے کے بعد ہمیںیہاں آنے کی جازت دی گئی تھی، تم یہ جان کر حیران ہو جائو گے میرے دوست کہ یہ یونیورسٹی دراصل کتنی اہم عمارت ہے اس پرپڑھنے والے تمام طالب علم یہودی تھے جنہیں عرب وعجم کے مسلم ممالک کیلئے تیارکرکےبھیجاجاتاہے‘‘۔مسلمان نوجوانوں کیلئے یہ واقعہ ضرور چشم کشا ہو گےا گزارش ہے کہ صرف ظاہرنہ دیکھاجائےبلکہ حکمت سے کام لیتے ہوئےاسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کے پس پشت محرکات پر بھی نـظر رکھیںکیونکہ شام ،عراق، فلسطین، چیچنیا،بوسنیا، کشمیر،افغانستان، برمامیں جوبدمعاشی جاری ہے وہ سب انہی لوگوں نے مچائی ہے

ظالم کے لیے بددعا جائز ہے۔۔

ﻃﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻇﺎﻟﻢ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ،ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﺩﻭﺷﯿﺰﮦ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺍٓﺑﺮﻭﯾﺰﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺍﺑﻮﻗﺼﺎﺏ ﺳﻌﯿﺪ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﯾﮧ ﻭ ﺯﺍﺭﯼ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺍٓﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﯾﺎﺩ ﮐﯽ ﮐﮧ ”: ﺣﻀﻮﺭ ! ﻣﯿﺮﯼ ﺩﺳﺘﮕﯿﺮﯼ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ۔ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﻠﻮﺍﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﻋﺰﺕ ﻟﻮﭨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ۔ﯾﮧ ﻣﻨﺤﻮﺱ ﺧﺒﺮ ﺳُﻦ ﮐﺮ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﮔﯽ ﺍٓﺋﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺷﺎﺋﺪ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﺳﮯ ﺍُﺱ ﺑﻼ ﮐﻮ ﭨﺎﻻ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ۔ ” ﺷﯿﺦ ﺍﺑﻮﺳﻌﯿﺪ ﻗﺼﺎﺏ ﺭﺣﻤﺘﮧ ﺍﻟﻠّﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺿﻌﯿﻔﮧ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳُﻦ ﮐﺮ ﭼﻨﺪ ﺛﺎﻧﯿﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﺮ ﺟُﮭﮑﺎﺋﮯ ﺭﮐﮭﺎ۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺳﺮ ﺑﻠﻨﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ” ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻣﺎﮞ ! ﺯﻧﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﺘﺠﺎﺏ ﺍﻟﺪﻋﻮﺍﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺎ،ﺗُﻮ ﻓﻼﮞ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺟﺎ ﻭﮨﺎﮞ ﺗﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺨﺺ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﻭﮦ ﺗﯿﺮﯼ ﺣﺎﺟﺖ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔ ” ﺿﻌﯿﻔﮧ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺷﮑﯿﻞ ﻭ ﺭﻋﻨﺎ ﺧﻮﺵ ﭘﺎﺵ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻼﻗﺎﺕ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﺲ ﮐﮯ ﻟﺒﺎﺱ ﺳﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮﻭٔﮞ ﮐﮯ ﻓﻮﺍﺭﮮ ﺍُﺑﻞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺿﯿﻌﻔﮧ ﻧﮯ ﺳﻼﻡ ﮐِﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﺏ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺿﯿﻌﻔﮧ ﮐﮯ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﭘﻮﭼﮭﮯ،ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﺎﺟﺮﺍ ﮐﮩﮧ ﺳُﻨﺎﯾﺎ۔ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﺿﻌﯿﻔﮧ ﮐﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺳُﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ : ” ﺗُﻮ ﭘِﮭﺮ ﺷﯿﺦ ﺍﺑﻮﺳﻌﯿﺪ ﮐﯽ ﺧﺪﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮩﮧ،ﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﻗﺒﻮﻝ ﮨﻮ ﮔﯽ۔ ” ﺿﯿﻌﻔﮧ ﻧﮯ ﺟُﻨﺠﮭﻼ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ : ” ﻋﺠﯿﺐ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺯﻧﺪﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﻣُﺮﺩﻭﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯿﺠﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣُﺮﺩﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﭘِﮭﺮ ﺯﻧﺪﮦ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻟﻮﭨﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺣﺎﺟﺖ ﺭﻭﺍﺋﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ،ﺑﮭﻼ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﻭٔﮞ؟ ” ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻧﮯ ﭘِﮭﺮ ﺿﻌﯿﻔﮧ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ : ” ﺗُﻮ ﺷﯿﺦ ﺍﺑﻮﺳﻌﯿﺪ ﮐﯽ ﺧﺪﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ،ﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﺍ ﻣﻘﺼﺪ ﭘﻮﺭﺍ ﮨﻮ ﮔﺎ۔ ” ﺿﯿﻌﻔﮧ ﭘِﮭﺮ ﺷﯿﺦ ﺍﺑﻮﺳﻌﯿﺪ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍٓﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺭﺍ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﻋﺮﺽ ﮐِﯿﺎ۔ ﺷﯿﺦ ﺍﺑﻮﺳﻌﯿﺪ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺟُﮭﮑﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺟﺴﻢ ﭘﺴﯿﻨﮧ ﺳﮯ ﺷﺮﺍﺑﻮﺭ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔ﭘِﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺦ ﻣﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮧ ﮐﮯ ﺑﻞ ﮔِﺮ ﭘﮍﮮ۔ﺍﺳﯽ ﻟﻤﺤﮧ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺷﻮﺭ ﻭ ﮨﻨﮕﺎﻣﮧ ﮐﯽ ﺍٓﻭﺍﺯ ﺑﻠﻨﺪ ﮨﻮﺋﯽ،ﻟﻮﮒ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ : ” ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻓﻼﮞ ﺿﻌﯿﻔﮧ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺍٓﺑﺮﻭﯾﺰﯼ ﮐﯽ ﻧِﯿّﺖ ﺳﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ،ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﻧﮯ ﭨﮭﻮﮐﺮ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﮔِﺮﺍ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﭨﻮﭦ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﻮﺭﺍً ﻣﺮ ﮔﯿﺎ۔ ﺍِﺱ ﻃﺮﺡ ﺷﯿﺦ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﺳﮯ ﺍﮨﻞِ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺑﻼ ﭨﻞ ﮔﺌﯽ۔ ” ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﯿﺦ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐِﯿﺎ ﮐﮧ ”: ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺿﻌﯿﻔﮧ ﮐﻮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﮭﯿﺤﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺍٓﭖ ﻧﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮧ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﯼ؟ ” ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ” ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﻧﺎﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺩﻋﺎ ﺳﮯ ﻭﮦ ﮨﻼﮎ ﮨﻮ۔ﺍِﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮍﮬﯿﺎ ﮐﻮ ﺧِﻀﺮ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴّﻼﻡ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯿﺠﺎ۔ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﭘِﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﺴﮯ ﭘﻠﯿﺪ ﺍِﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺪ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ۔

Saturday 25 March 2017

قران سے تعلق مضبوط ہو تو مسلمان آج بھی سپر پاور بن سکتے ہیں

ﺍﯾﮏ ﻭﮦ ﻭﻗﺖ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﮑﮧ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﺍﺑﮭﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﻣﺮﺑﻊ ﻣﯿﻞ ﮐﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺍﻣﯿﺮ ﺑﻦ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺍٓﺝ ﮐﺎ ﺩﻭﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺯﯾﺮِ ﺗﺴﻠﻂ ﻣﻤﺎﻟﮏ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﭼﮭﯿﻨﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭘﮩﻠﮯ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺗﮭﮯ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻭ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﮐﺘﻔﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺩﯾﻦ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎ۔ ﻏﻮﺭ ﻭ ﻓﮑﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺸﻐﻠﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ۔ﯾﮧ ﻋﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺗﻔﮑﺮ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯽ ﮨﻢ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﯽ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯽ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍٓﺝ ﮨﻢ ﺍﻭﻝ ﺗﻮ ﻗﺮﺍٓﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﻮ ﮨﯽ ﻏﻨﯿﻤﺖ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﮯ ﺗﯿﺲ ﮐﮯ ﺗﯿﺲ ﺳﭙﺎﺭﮮ ﭘﮍﮬﺎ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﺎﻝ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺍٓﯾﺖ ﮐﺎ ﺗﺮﺟﻤﮧ ﺗﻔﺴﯿﺮ ﺳﮑﮭﺎﺋﯽ ﮨﻮ۔ﺑﭽﮯ ﺗﻮ ﺑﭽﮯ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ ﺑﮍﻭﮞ ﻧﮯ ﮐﻮﻥ ﺳﮯ ﭼﺎﻧﺪ ﭼﮍﮬﺎ ﺩﯾﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﺴﺠﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﺎﺯﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﻤﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﻧﻤﺎﺯﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﻦ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﻓﺮﺍﺋﺾ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﺟﺒﺎﺕ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﭘﺘﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻭﺿﻮ ﺍﻭﺭ ﻏﺴﻞ ﮨﺮ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻮﮒ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺴﺘﻌﻤﻞ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻧﮧ ﻭﺿﻮ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻏﺴﻞ۔ﺷﺎﯾﺪ ﮨﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺳﻨﺎ ﮨﮯ۔ ﺷﺎﯾﺪ ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﻣﻮﻟﻮﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺮﺍﻓﺎﺕ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﭨﺎﻝ ﺩﯾﮟ ۔ ﭘﮭﺮ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﯿﺴﮯ ﺻﺤﯿﺢ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻣﺜﺎﻝ ﺗﮭﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﻻ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﻮ ﺳﯿﮑﮭﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﮑﮭﺎﻧﺎ ﮨﻢ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ۔ﻗﺮﺍٓﻥ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻧﺒﯽ ﭘﺎﮎ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍٰﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﮐﯿﮟ ﯾﺎ ﺟﻮ ﺍٓﭖ ﮐﮯ ﺗﻮﺳﻂ ﺳﮯ ﮨﻢ ﺳﮯ ﮐﯿﮟ۔ ﺍﮔﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﺘﮧ ﮨﯽ ﻧﮧ ﭼﻠﮯ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺭﺏ ﮨﻢ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﮐﯿﺴﮯ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ﻗﺮﺍٓﻥ ﭘﺎﮎ ﺑﻐﯿﺮ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﻣﺤﺾ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺖ ﻓﻀﯿﻠﺖ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺧﺘﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ۔ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺑﺎﺕ ﺧﺘﻢ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯿﮟ ﭘﺮ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ۔ ﻗﺮﺍٓﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﮐﺮ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﮨﯽ ﻣﻘﺼﺪ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺩﯾﻦ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺻﺮﻑ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺘﯽ۔ﺣﻀﻮﺭ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍٓﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎﺗﺮﺟﻤﮧ۔ ’’ ﺍﯾﮏ ﻓﻘﯿﮧ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﻋﺎﺑﺪﻭﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮭﺎﺭﯼ ﮨﮯ۔ ‘‘ ﺍﺑﻦ ﻣﺎﺟﮧ ﻣﯿﮟ ﺣﺪﯾﺚ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﮨﮯ۔ﺣﻀﺮ ﺕ ﺍﺑﻮ ﺫﺭؓ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭؐ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ : ’’ ﺍﮮ ﺍﺑﻮ ﺯﺭ ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﺟﺎﮐﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍٓﯾﺖ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺳﮑﮭﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺳﻮ ﺭﮐﻌﺖ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ۔ ‘‘ ‏( ﺍﺑﻮ ﺩﺍﺋﻮﺩ، ﺍﻟﺴﻨﻦ، ۱ : ۹۷ ،ﺭﻗﻢ : ۹۱۲ ‏) ۔ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺍﺱ ﺍﻣﺮ ﮐﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﻮ ﻧﻈﺎﻡِ ﺣﯿﺎﺕ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﭘﯿﺮﺍ ﮨﻮﺍ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﺎ ﻣﻨﺸﻮﺭ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﻭﮨﯽ ﻋﺮﻭﺝِ ﺛﺮﯾﺎ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻧﺸﺎﻁِ ﺛﺎﻧﯿﮧ ﮐﮯ ﺛﻤﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﻣﺴﺘﻔﯿﺪ ﮨﻮﺳﮑﯿﮟ۔

یاجوج ماجوج زمین کے کس حصے میں ہیں۔مکمل و مدلل تحریر

یاجوج و ماجوج حضرت نوح علیہ السلام کے تیسرے بیٹے یافث کی اولاد میں سے ہیں۔ یہ انسانی نسل کے دو بڑے وحشی قبیلے گزر چکے ہیں جو اپنے اِرد گرد رہنے والوں پر بہت ظلم اور زیادتیاں کرتے اور انسانی بستیاں تک تاراج کر دیتے تھے۔ قرآن مجید کی آیات، توریت کے مطالب اور تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ شمال مشرقی ایشیا میں زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے وحشیانہ حملوں کے نتیجہ میں ایشیا کے جنوبی اور مغربی علاقوں میں مصیبت برپا کرتے تھے۔ بعض تاریخ دانوں نے ان کے رہائشی علاقے کو ماسکو اور توبل سیک کے آس پاس بتلایا ہے اور بعض کا خیال ہے کہ یاجوج و ماجوج کے شہر تبت اور چین سے بحرمنجمد شمالی تک اور مغرب میں ترکستان تک پھیلے ہوئے تھے۔ حضرت ذوالقرنین کے زمانے میں یاجوج و ماجوج کے حملے وبال جان بن گئے تھے، ان کی روک تھام کیلئے ذوالقرنین نے پہاڑوں کے مابین اونچی اور مضبوط سد (دیوار) تعمیر فرمائی۔ ذوالقرنین اور سدِ ذوالقرنین کا ذکر قرآن کریم کی سورة الکہف میں موجود ہے۔ جس ذوالقرنین کا قرآن میں ذکر ہے، تاریخی طور پر وہ کون شخص ہے، تاریخ کی مشہور شخصیتوں میں یہ داستان کس پر منطبق ہوتی ہے، اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ تاریخ کی کتابوں کے مطالعے کے بعد لوگوں نے ذوالقرنین کی شخصیت اور سدِ ذوالقرنین سے متعلق مختلف اندازے لگائے ہیں۔ بہت سے قدیم علماء اور مفکر سکندرِ اعظم کو ہی ذوالقرنین مانتے ہیں مگر بعض اس کا انکار کرکے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ذوالقرنین دراصل حضرت سلیمان علیہ السلام کا خطاب تھا۔ جدید زمانے کے کچھ مفسر و مفکر ذوالقرنین کو قدیم ایرانی بادشاہ سائرس اعظم (کورش اعظم)کا دوسرا نام قرار دیتے ہیں اور یہ نسبتاً زیادہ قرین قیاس ہے، مگر بہرحال ابھی تک یقین کے ساتھ کسی شخصیت کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ذوالقرنین کی بابت قرآن نے صراحت کی ہے کہ وہ ایسا حکمران تھا جس کو اللہ نے اسباب و وسائل کی فروانی سے نوازا تھا۔ وہ مشرقی اور مغربی ممالک کو فتح کرتا ہوا ایک ایسے پہاڑی درّے پر پہنچا جس کی دوسری طرف یاجوج اور ماجوج تھے۔ قرآن کریم کی سورة کہف میں بحوالہ یاجوج ماجوج ذوالقرنین کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ جب وہ اپنی شمالی مہم کے دوران سو دیواروں (پہاڑوں) کے درمیان پہنچا تو وہاں اسے ایسی قوم ملی جس کی زبان ناقابل فہم تھی تاہم جب ترجمان کے ذریعے گفتگو ہوئی تو انہوں نے عرض کیا کہ یاجوج ماجوج اس سرزمین پر فساد پھیلاتے ہیں لہٰذا تو ہمارے اور ان کے درمیان ایک سد (دیوار) تعمیر کر دے۔ چنانچہ پھر یہ تفصیل ہے۔ کس طرح ذوالقرنین نے اُس قوم کو یاجوج ماجوج کی یلغار سے بچانے کیلئے دیوار بنائی اور جو دیوار بنائی گئی وہ کوئی خیالی اور معنوی نہیں بلکہ حقیقی اور حسی ہے جو کہ لوہے اور پگھلے ہوئے تانبے سے بنائی گئی تھی جس سے وقتی طور پر یاجوج ماجوج کا فتنہ دب گیا۔ جب یہ دیوار تعمیر ہو گئی تو ذوالقرنین نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے یہ دیوار بنانے اور لوگوں کو آئے دن کی پریشانیوں سے نجات دلانے کی توفیق بخشی مگر ساتھ ہی لوگوں کو یہ بھی بتا دیا کہ یہ دیوار اگرچہ بہت مضبوط اور مستحکم ہے مگر یہ لازوال نہیں جو چیز بھی بنی ہے بالآخر فنا ہونے والی ہے اور جب میرے رب کے وعدے کا وقت قریب آئیگا تو وہ اس کو پیوندخاک کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔ رہی یہ بات کہ سدِ ذوالقرنین کہاں واقع ہے؟ تو اس میں بھی اختلافات ہیں کیونکہ آج تک ایسی پانچ دیواریں معلوم ہو چکی ہیں جو مختلف بادشاہوں نے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار میں جنگجو قوموں کے حملوں سے بچائو کی خاطر بنوائی تھیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ مشہور دیوارِ چین ہے جس کی لمبائی کا اندازہ بارہ سو میل سے لے کر پندرہ سو میل تک کیا گیا ہے اور اب تک موجود ہے لیکن واضح رہے کہ دیوارِ چین لوہے اور تابنے سے بنی ہوئی نہیں ہے اور نہ وہ کسی چھوٹے کوہستانی درّے میں ہے ، وہ ایک عام مصالحے سے بنی ہوئی دیوار ہے۔ بعض کا اصرار ہے کہ یہ وہی دیوار ”مارب” ہے کہ جو یمن میں ہے، یہ ٹھیک ہے کہ دیوارِ مارب ایک کوہستانی درے میں بنائی گئی ہے لیکن وہ سیلاب کو روکنے کیلئے اور پانی ذخیرہ کرنے کے مقصد سے بنائی گئی ہے۔ ویسے بھی وہ لوہے اور تانبے سے بنی ہوئی نہیں ہے جبکہ علماء و محققین کی گواہی کے مطابق سرزمین ”قفقاز” میں دریائے خزر اور دریائے سیاہ کے درمیان پہاڑوں کا ایک سلسلہ ہے کہ جو ایک دیوار کی طرح شمال اور جنوب کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔ اس میں ایک دیوار کی طرح کا درّہ بھی موجود ہے جو مشہور درّہ ”داریال” ہے۔ یہاں اب تک ایک قدیم تاریخی لوہے کی دیوار نظر آتی ہے، اسی بناء پر بہت سے لوگوں کا نظریہ ہے کہ دیوارِ ذوالقرنین یہی ہے۔ اگرچہ سدِ ذوالقرنین بڑی مضبوط بنا ئی گئی ہے جس کے اوپر چڑھ کر یا اس میں سوراخ کرکے یاجوج ماجوج کا اِدھر آنا ممکن نہیں لیکن جب اللہ کا وعدہ پورا ہوگا تو وہ اسے ریزہ ریزہ کرکے زمین کے برابر کر دے گا، اس وعدے سے مراد قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کا ظہور ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں حضور نبی کریمﷺنے اس دیوار میں تھوڑے سے سوراخ کو فتنے کے قریب ہونے سے تعبیر فرمایا۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ یاجوج ماجوج ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں اور پھر کل کیلئے چھوڑ دیتے ہیں لیکن جب اللہ کی مشیات ان کے خروج کی ہوگی تو پھر وہ کہیں گے کل اِن شاء اللہ اس کو کھودیں گے اور پھر دوسرے دن وہ اس سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور زمین میں فساد پھیلائیں گے یعنی انسانوں کو بھی کھانے سے گریز نہیں کرینگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوگا کہ وہ مسلمانوں کو طور کی طرف جمع کرلے کیونکہ یاجوج ماجوج کا مقابلہ کسی کے بس میں نہ ہوگا۔ حضرت عیسیٰ اور ان کے ساتھی اس وقت ایسی جگہ کھڑے ہوں گے جہاں غذا کی سخت قلت ہوگی پھر لوگوں کی درخواست پر حضرت عیسیٰ یاجوج ماجوج کیلئے بددعا فرمائیں گے پس اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں اور کانوں میں کیڑا پیدا کر دے گا جو بعد میں پھوڑا بن جائے گاجس کے پھٹنے سے یہ ہلاک ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ سب سے سب مر جائیں گے ، ان کی لاشوں سے ایک بالشت زمین بھی خالی نہ ہوگی اور ہر طرف ان کی لاشوں کی گندی بو پھیل جائے گی ، پھر عیسیٰ ابن مریم دعا کریں گے تو اللہ جل و شانہ اونٹ کی گردن برابر پرندے بھیجیں گے جو ان کی لاشوں کو اٹھا کر جانے کہاں پھینک دینگے ، پھر ایک بارش ہوگی جس سے کل زمین صاف شفاف ہو جائے گی اور ہر طرف ہریالی و خوشحالی ہوگی۔ صحیح مسلم میں نواس بن سمعان کی روایت میں صراحت ہے کہ یاجوج ماجوج کا ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہوگا، جس سے ان مفسرین کی تردید ہو جاتی ہے، جو کہتے ہیں کہ تاتاریوں کا مسلمانوں پر حملہ یا منگول ترک جن میں سے چنگیز بھی تھا یا روسی اور چینی قومیں یہی یاجوج و ماجوج ہیں، جن کا ظہور ہو چکا یا مغربی قومیں ان کا مصداق ہیں کہ پوری دنیا میں ان کا غلبہ و تسلط ہے۔ یہ سب باتیں غلط ہیں، کیونکہ یاجوج و ماجوج کے غلبے سے سیاسی غلبہ مراد نہیں ہے بلکہ قتل و غارت گری اور شر و فساد کا وہ عارضی غلبہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کی طاقت مسلگی، تاہم پھر وبائی مرض سے سب کے سب آن واحد میں لقمہ اجل بن جائیں گے

عشق حقیقی کا لطف

ﺣﻀﺮﺕ ﺟﻨﯿﺪ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼ ؒﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﺍٓﺋﯽ ، ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍٓﭖ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻓﺘﻮﯼٰ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻮﯼ ﮨﻮ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻧﮑﺎﺡ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ؟ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﻨﯿﺪ ﺑﻐﺪﺍﺩﯼؒ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﻣﺮﺩ ﮐﻮ ﭼﺎﺭ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﯼ ﮨﮯ ﺑﺸﺮﻃﯿﮑﮧ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﭻ ﺍﻧﺼﺎﻑ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ - ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﻏﺮﻭﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﮔﺮ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﺣﺴﻦ ﺩﮐﮭﺎﻧﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﺴﻦ ﺩﮐﮭﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮐﮩﺘﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺍﺗﻨﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﯿﻮﯼ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭﺕ؟؟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﭼﯿﺦ ﻣﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮩﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ - ﻭﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﮨﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺍٓﺋﮯ ﺗﻮ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﻧﮯ ﻭﺟﺪ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﭘﻮﭼﮭﯽ - ﺣﻀﺮﺕ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺍٓﺧﺮﯼ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﻟﻘﺎ ﮐﯿﮯ ﮐﮧ : ﺍﮮ ﺟﻨﯿﺪ ! ﺍﮔﺮ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﺣﺴﻦ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺟﻠﻮﮦ ﮐﺮﻭﺍﺗﺎ ﺗﻮ ﻟﻮﮒ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﮩﮧ ﺍﭨﮭﺘﮯ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻟﻠﻪ ﮨﻮ ﺍﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ . ؟

آج آسمان نے بھی اپنے آنسو بہائے


شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ، یہ معروف قول تھا شیر میسور ٹیپو سلطان شہید کا ۔ٹیپو سلطان ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے آخری حکمران تھے۔ آپ کا پورا نام فتح علی ٹیپو تھا۔ آپ نے اور آپ کے والد سلطان حیدر علی نے جنوبی ہند میں 50 سال تک انگریزوں کو روکے رکھا اور کئی بار انگریز افواج کو شکست فاش دی۔

یوں تو شجاعت و بہادری کے کئی قصے ان سے منسوب ہیں مگر ہم اپنے قارئین کے ذوق کی نذر ایک تحریر کررہے ہیں ۔سینئیر کالم نگار جی این بھٹ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ :ڈیوک آف ولنگٹن کی سپاہ ایک خونریز معرکہ میں سرنگا پٹنم فتح کرچکی تھیں مگر ڈیوک آف ولنگٹن کو ابھی تک اپنی فتح کا یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ عالمِ تصور میں میسور کے شیر کو ایک خوفناک دھاڑ کے ساتھ اپنے پرحملہ آور ہوتا دیکھ کر چونک جاتا تھا‘ اسکی سپاہ سرنگا پٹنم کے میدان میں جمع ہونے والے محب وطن شہیدوں کی نعشوں میں میسور کے شیر کو تلاش کر رہے تھے، رات کی سیاہی اور گہری ہوتی جا رہی تھی۔ لگتا تھا آسمان نے بھی ٹیپو سلطان کی شکست پر جو اسکے اپنے بے ضمیر درباریوں‘ اور لالچی وزیروں کی وجہ سے ہوئی اپنا چہرہ شب کی تاریکی میں چھپا لیا تھا‘ اتنے میں چند سپاہی ولنگٹن کے خیمے میں آئے‘ انکے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ انہوں نے اسے ٹیپو سلطان کی شہادت اور اسکی نعش برآمد ہونے کی اطلاع دی۔ یہ نعش سلطان کے وفاداروں کے ڈھیر کے نیچے دبی ملی۔ جنرل ولنگٹن خوشی سے حواس باختہ ہوکر سلطان کی نعش کے پاس پہنچا تو وہ نعش وفاداروں کے جمگھٹ میں ایسی پڑی تھی جیسے بْجھی ہوئی شمع اپنے گرد جل کر مرنے والے پروانوں کے ہجوم میں ہو‘ جنرل نے سلطان کے ہاتھ میں دبی اسکی تلوار سے اسے پہچان کر اسکی شناخت کی۔

یہ تلوار آخر وقت تک سلطان ٹیپو کے فولادی پنجے سے چھڑائی نہ جا سکی۔ اس موقع پر جنرل نے ایک بہادر سپاہی کی طرح شیر میسور کو سلیوٹ کیا اور تاریخی جملہ کہا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے، اب کوئی طاقت ہماری راہ نہیں روک سکتی‘‘ اور اسکی نعش اندر محل کے زنان خانے میں بھجوائی تاکہ اہلخانہ اس کا آخری دیدار کریں اس کے ساتھ ہی آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا۔ جب سلطان کی قبر کھودی جانے لگی تو آسمان کا سینہ بھی شق ہو گیا اور چاروں طرف غیض و غضب کے آثار نمودار ہوئے، بجلی کے کوندے لپک لپک کر آسمان کے غضب کا اظہار کر رہے تھے۔

اس وقت غلام علی لنگڑا، میر صادق اور دیوان پورنیا جیسے غدارانِ وطن خوف اور دہشت دل میں چھپائے سلطان کی موت کی خوشی میں انگریز افسروں کے ساتھ فتح کے جام لنڈھا رہے تھے، اور انکے چہروں پر غداری کی سیاہی پھٹکار بن کر برس رہی تھی‘ جوں ہی قبر مکمل ہوئی لحد بن گئی تو آسمان پھٹ پڑا اور سلطان میسور کی شہادت کے غم میں برسات کی شکل میں آنسو?ں کا سمندر بہہ پڑا۔ قبر پر شامیانہ تانا گیا محل سے لیکر قبر تک جنرل ولنگٹن کے حکم پر سلطان میسور کا جنازہ پورے فوجی اعزاز کے ساتھ لایا گیا۔

فوجیوں کے دو رویہ قطار نے کھڑے ہوکر ہندوستان کے آخری عظیم محبِ وطن بہادر جنرل اور سپوت کے جنازے کو سلامی دی۔ میسور کے گلی کوچوں سے نالہ و آہ شیون بلند ہو رہا تھا، ہر مذہب کے ماننے والے لاکھوں شہری اپنے عظیم مہربان سلطان کیلئے ماتم کر رہے تھے اور آسمان بھی انکے غم میں رو رہا تھا۔ جنرل ولنگٹن کے سپاہ نے آخری سلامی کے راؤنڈ فائر کئے اور میسور کی سرزمین نے اپنے ایک عظیم سعادت مند اور محب وطن فرزند کو اپنی آغوش میں ایک مادر مہربان کی طرح سمیٹ لیا۔ اس موقع پر سلطان کے معصوم چہرے پر ایک ابدی فاتحانہ مسکراہٹ نور بن کر چمک رہی تھی۔ آج بھی ہندوستان کے ہزاروں باسی روزانہ اس عظیم مجاہد کی قبر پر بلا کسی مذہب و ملت کی تفریق کے حاضر ہو کر سلامی دیتے ہیں۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے

ﺍٓﺯﺍﺩ ﺟﻤﻮﮞ ﻭ ﮐﺸﻤﯿﺮ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﺑﺎﻻ ﮐﻮﭦ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﯿﻦ ﮨﻮﻧﮩﺎﺭ ﻃﺎﻟﺒﺎﺕ ﻧﮯ ﺭﯾﺎﺿﯽ ﮐﮯﻧﺌﮯ ﻓﺎﺭﻣﻮﻟﮯﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮ ﻟﯿﮯ۔ ﻗﻮﻣﯽ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﺍﯾﮑﺴﭙﺮﯾﺲ ﮐﯽ ﺭﭘﻮﺭﭦ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﮔﺮﯾﮉ ﻭﻥ ﮐﯽ ﺗﯿﻦ ﻃﺎﻟﺒﺎﺕ ﻧﮯ ﺭﯾﺎﺿﯽ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﻓﺎﺭﻣﻮﻟﮯ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮﮐﮯ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﺩﻋﺎ ﻃﺎﮨﺮ ﻧﺎﻣﯽ ﻃﺎﻟﺒﮧ ﮐﮯ Dua's Method of finding Greater than, less than Symbol ﻓﺎﺭﻣﻮﻟﮯ ﮐﻮ ﺑﯿﻦ ﺍﻻﻗﻮﺍﻣﯽ ﺭﯾﺎﺿﯽ ﺩﺍﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ۔ ﺩﻋﺎ ﻃﺎﮨﺮ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﻋﺎﺋﺰﮦ ﻧﺎﻣﯽ ﻃﺎﻟﺒﮧ ﻧﮯ Aiza's Method of Division ﺍﻭﺭﺑﺸﺮﯼٰ ﺑﯽ ﺑﯽ ﻧﮯ Bushra's Method of finding Multiples & Cofficient ﻓﺎﺭﻣﻮﻻ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮﮐﮯ ﺭﯾﺎﺿﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﺌﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﺭﻗﻢ ﮐﯽ۔ ﻧﺠﯽ ﺳﮑﻮﻝ ﮐﯽ ﺍﻥ ﻧﻨﮭﯽ ﻃﺎﻟﺒﺎﺕ ﻧﮯ ﺭﯾﺎﺿﯽ ﮐﮯ ﺗﯿﻦ ﻧﺌﮯ ﻓﺎﺭﻣﻮﻟﮯ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮﮐﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﻭﺭﻃﮧ ﺣﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔