مصرف کو دیکھ کر حرام کا پتہ
امام مالکؒ کے پاس ایک بندہ آیا؛ کہنے لگا کہ حضرت آپ جو کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کے مال کے مصرف سے ان کی آمد کا اندازہ لگا لیتے ہیں اس کا کیا مطلب؟ فرمایا اچھا ایسا کرو کہ یہ درہم ہے، اس کو لے کر شہر میں جاؤ، اور جس بندہ کو تم سمجھتے ہو کہ وہ سب سے زیادہ غنی ہے، محتاج نہیں، سائل نہیں، اس کو دے دو اور پھر دیکھو کہ یہ خرچ کہاں کر رہا ہے، چنانچہ وہ گیا، اس نے شہر میں دیکھا کہ ایک بندہ اس کا لباس بڑا اچھا، اس کا چہرہ بڑا اچھا، ایسے جیسے بڑے شریف کا ہوتا ہے اور وہ ہاتھ میں تھیلہ لیے جارہا تھا، اس نے کہا یہ بندہ واقعتاً سائل نہیں ہو سکتا، اس نے اس کو دے دیا، دینے کے بعد وہ اس کے پیچھے لگ گیا، اس نے عجیب بات دیکھی کہ وہ بندہ ایک گلی میں مڑا اور تھیلہ گلی میں پھینک کر ایک دکان کے اندر گیا، وہاں سے سودا خرید کر گھر کے اندر لے گیا، اس نے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا، اس نے کہا میں آپ سے ایک بات معلوم کرنا چاہتا ہوں، آپ مجھے صورتِ حال اور اس کی حقیقت بتائیں، اس نے کہا دیکھو، میں سادات میں سے ہوں، میرے گھر میں تین دن سے فاقہ چل رہا ہے، گھر کے بچے اس وقت فاقہ کی وجہ سے مرنے کی حالت میں پہنچ گئے ہیں، میں اپنی کسی بیماری کی وجہ سے مشقت کے قابل نہیں، نہ ہم کسی سے کچھ مانگ سکتے ہیں، تو آج بچوں کو اس فاقہ کی حالت میں دیکھ کر، تڑپتا دیکھ کر اٹھا اور میں نے باہر ایک مردہ بکری کو دیکھا تو میں نے سوچا کہ چلو میں اس کا گوشت لے جاتا ہوں میرے بچوں کے لیے اس اضطرار کی حالت میں حلال ہے، میں نے بکری کی ران کاٹی اور لے کر جا رہا تھا کہ آپ نے مجھے پیسے دے دیے، اب میرے لیے اس کا استعمال کرنا حرام ہو گیا، میں نے اس کو پھینک دیا، دکان سے یہ چیزیں خریدیں اور گھر والوں کو دیں کہ ایک صاحب نے مجھے ہدیہ دیا ہے، چنانچہ جو پیسہ آپ نے دیا وہ سید گھرانے کے بچوں نے اضطرار کی حالت میں استعمال کیا، اس پر وہ حیران ہو گیا، آ کر حضرت کو بتایا. حضرت نے فرمایا اب اپنا پیسہ نکال لو اور جس کو سب سے زیادہ محتاج سمجھتے ہو اسکو جا کر دو، پھر دیکھو وہ کیا کرتاہے، چنانچہ وہ پیسہ لے کر نکلا، اس نے بازار میں ایک بندے کو دیکھا جو ذرا لنگڑا بھی تھا اور فقیر بنا ہوا تھا، چنانچہ اس نے سوچا کہ یہ معذور بھی ہے، فقیر بھی ہے، اس کو پیسہ دیتا ہوں، پیسہ اس کو دے دیا، اس کے بعد اس کے پیچھے چلنے لگا، دیکھا کہ وہ سیدھا ایک ایسی دکان پر گیا جہاں چرس بکا کرتا تھا. اس لنگڑے نے اسی پیسہ سے کچھ چرس خریدا، اس کے بعد وہ لنگڑا نوجوان ایک طوائف کے گھر گیا، اور جو پیسہ اس نے دیا تھا اس سے زنا کا مرتکب ہوا، اس نے اس سے پوچھا کہ تم نے کیا حرکت کی، اس نے کھلم کھلا بتا دیا۔ اس نے آ کر کہا کہ حضرت آپ نے سچ کہا، میرا پیسہ مشتبہ تھا میں نے اپنی طرف سے صحیح بندے کو دیا لیکن اس نے اس کو گناہ کے کاموں میں استعمال کیا، جب کہ آپ کا پیسہ حلال تھا، میں نے ظاہر میں ایک ایسے بندے کو دیکھا جو غیر مستحق تھا، مگر اللہ نے آپ کے پیسوں کو اچھی جگہ پہنچا دیا، آپ نے فرمایا کہ ہم مال کے مصارف سے مال کی آمد کا اندازہ لگا لیتے ہیں، یہ کدھر سے آ رہا ہے، حلال آ رہا ہے یا حرام آ رہا ہے؟
No comments:
Post a Comment