The Knowledge Pulse is a multi-themed blog exploring academia, AI, career guidance, general knowledge, religious insights, wisdom quotes & stories, and research support. Designed for students, professionals, and lifelong learners—it's a space to learn, reflect, and grow with purpose. --------------------- نالج پلس ایک ایسا بلاگ ہے جہاں آپ کو تعلیم، روزگار، دینی باتیں، مصنوعی ذہانت، عام معلومات، طلبہ کی رہنمائی اور حکمت بھری باتیں ایک جگہ ملتی ہیں۔ یہ ہر سیکھنے والے کے لیے فائدہ مند ہے۔
Tuesday, 30 May 2017
بچوں کے بچپن سے کھلواڑ نه کریں
"" میرے آنکھوں کے تارے! میری جان کے ٹکڑے!""
آج میں نے تم سے کچھ کہنا ہے.
مجھے معلوم ہے کہ تم اس وقت نیند کی وادی میں کھوئے ہوئے ہو. تمہارے چہرے پر عجیب سا سکون ہے. تمہارے بال بکھرے ہوئے ہیں. تمہارے سارا دن حرکت میں رہنے والے نرم و نازک ہاتھ پاؤں اس وقت ساکن پڑے ہیں. تمہاری سارا دن چلنے والی زبان اس وقت خاموش ہے. ہر چیز کو تجسس کے مارے دیکھنے والی آنکھیں بھی بند ہیں.
میں تمہارا بابا جان دبے پاؤں تمہارے کمرے میں داخل ہوا ہوں. کچھ ہی دیر پہلے کی تو بات ہے کہ دوسرے کمرے میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا کہ اچانک ندامت کے احساس نے مجھے بے قرار و بے چین کر دیا. میں نے ہمیشہ کی طرح آج بھی اس احساس کو دبانے کی بھرپور کوشش کی لیکن آج میں ہار ہو گیا اور تم جیت گئے.
میرے نورِ نظر! آج میں ندامت اور شرمندگی کے ساتھ تمہارے سامنے کھڑا ہوں.
آپ جانتے ہو بیٹا کہ میں اتنا نادم اور شرمسار کیوں ہوں؟...... آج صبح صبح میں تم سے ناراض ہو گیا تھا. میں نے تمہیں ڈانٹ دیا تھا. کیونکہ تم دیر سے بستر سے اٹھے. پھر تم منہ ہاتھ دھوئے بغیر ناشتہ کرنے بیٹھ گئے. تمہاری سکول کی چیزیں بھی اِدھر اُدھر بکھری ہوئی تھیں. ناشتے کے دوران بھی میں نے تمہارے اندر کئی نقص نکالے. مثلا ً تم اپنے سامنے سے کیوں نہیں کھاتے؟ برتن آگے پیچھے کیوں کر رہے ہو ؟ ناشتہ صحیح چبا کر کیوں نہیں کرتے؟ میز پر کہنیاں کیوں رکھیں؟ وغیرہ وغیرہ. پھر تم نے مجھ سے بیس روپے مانگے اور میں نے تمہیں یہ کہہ کر خاموش کر دیا کہ پچاس روپے کا لنچ جو لے کر جا رہے ہو.
جب تم سکول جانے لگے تو پھر تمہیں ڈانٹا کہ دیر سے کیوں نکل رہے ہو. گاڑی والا کب سے ہارن دے رہا ہے. تم نے گویا اپنی موٹی موٹی آنکھوں سے بول کر مجھ سے پیار مانگا. لیکن میں تو تمہاری اصلاح کی فکر میں وہ آواز سن ہی نہ سکا.
جب میں شام کو کام سے واپس گھر لوٹا تو دیکھا کہ تم گلی میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہے تھے اور تم نے ابھی تک سکول یونیفارم بھی نہیں بدلی تھی. میرے اندر کا مبلغ پھر جاگ گیا اور میں نے تمہیں تمہارے دوستوں کے سامنے ہی ڈانٹنا شروع کر دیا. مجھے ذرا بھی خیال نہ آیا کہ ان دوستوں کی نظر میں تمہاری بھی کوئی عزت ہے اور میں اسے خراب کر رہا ہوں. تم شرمندہ شرمندہ میرے آگے آگے گھر کو چل پڑے اور میں کپڑوں پر لیکچر جھاڑ رہا تھا کہ کتنے مہنگے لیے ہیں.
بیٹا جان! تمہیں یاد ہو گا کہ شام کو میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا. تم کمرے میں داخل ہوئے. دبے پاؤں، ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے. تمہاری آنکھیں مجھ سے شکوہ کر رہی تھیں. تم آ کر دروازے میں چپ چاپ کھڑے ہو گئے اور گویا زبان حال سے کہنے لگے کہ "بابا جان! میں آپ سے ناراض ہوں. مجھے کب راضی کرو گے؟". میرا دل چاہا کہ میں تمہیں گلے لگا کر آج سارے شکوے دور کر دوں. لیکن میں کتاب میں حد درجہ محو تھا. لہذا مجھے برا لگا کہ تم نے آ کر میرے مطالعہ میں خلل ڈال دیا. میں نے تمہیں گھور کر دیکھا اور سختی سے بولا:
"کیوں؟ کیا ہے؟ "
اس وقت میری آواز میں بھی سختی تھی اور چہرے کے تاثرات بھی غیر مناسب. لیکن میں تمہاری ہمت کو داد دیتا ہوں کہ اس کے باوجود تم نے ڈرتے ڈرتے کانپتی ہوئی آواز میں اپنے دل کی بات کہہ ہی ڈالی. یہ تمہاری ہمت تھی بیٹا. ورنہ تمہاری جگہ میں بھی ہوتا تو اتنی ہمت شاید نہ کر سکتا. تم نے جو کہا میں ساری زندگی نہیں بھول سکوں گا. تم نے کہا تھا:
" بابا جان! میں آپ سے ناراض ہوں. مجھے کس وقت راضی کریں گے؟.
تم تو یہ کہہ کر چپ چاپ باہر نکل گئے. لیکن میری گویا سانس رک سی گئی. کتاب میرے ہاتھ سے گر گئی. میں چہرہ ہاتھوں میں دے کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا. میں نے کمرہ اندر سے لاک کر دیا اور دل کھول کر رویا. میں نے سوچا کہ میں کتنا بدمزاج اور بداخلاق ہوں. ہر وقت تم سے شکایتیں کرتا رہتا ہوں. سختی اور بدمزاجی کے ساتھ تمہارے نقص نکالنے کو میں نے اپنی عادت بنا دیا. میں نے کبھی پیار محبت سے تمہاری اصلاح کی کوشش ہی نہیں کی.
تم میرے بیٹے ہی نہیں بلکہ میری جان ہو. مجھے تم سے زیادہ عزیز شاید کوئی نہیں ہے. لیکن میں آج تک اپنی اس شدید محبت کا اظہار غلط طریقے سے کرتا رہا....... کیونکہ میں تمہیں ہمیشہ اپنی عمر اور اپنی پسند کے معیار پر تولا اور پرکھا........ میں نے کبھی یہ سوچا ہی نہ کہ تم ایک ننھے منے معصوم بچے ہو اور میں تم سے ایک جوان جیسے اعمال اور سمجھ بوجھ کی توقع کرتا رہا. میں تو آج پہلی بار تمہیں ایک چھ سالہ ننھے منے بچے کی شکل میں دیکھ رہا ہوں...... میری حد سے بڑھی ہوئی توقعات کا بوجھ نہ جانے کب سے تمہارے معصوم بچپن کو کچل رہا ہے اور مجھے احساس تک نہیں. تمہارا کردار اور طرزِ عمل تمہاری عمر کے لحاظ سے بہترین تھا......
ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﻃﺮﺯِ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﺮﯼ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﻟﺤﺎﻅ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﻏﻠﻂ ﺗﮭﺎ .
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﺑﮯ ﺑﺎﺕ ﭨﻮﮐﺎ ....... ﻏﯿﺮ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﺳﺨﺘﯽ ﮐﯽ ....... ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺎﺭﮨﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﮐﯿﺎ ....... ﺗﻢ ﭘﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺍﺳﺘﻄﺎﻋﺖ ﺳﮯ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﮔﻨﺎ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﻮﺟﮫ ﮈﺍﻟﮯ ﺭﮐﮭﺎ ....... ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﮭﯽ ....... ﺗﻢ ﻧﮯ ﮨﻤﺖ ﻧﮧ ﮨﺎﺭﯼ ...... ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺑﮭﺮﮮ ﺑﻮﺳﮯ ﺩﯾﮯ ....... ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﻮﭨﯽ ﻣﻮﭨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺘﯿﮟ ﮐﯿﮟ ....... ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮﮐﺎﺭ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺁﺝ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ...... " ﺍﮔﺮ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺑﭽﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺟﯿﺴﮯ ﺭﻭﯾﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻗﻌﺎﺕ ﺭﮐﮫ ﻟﯽ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺑﭽﮯ ﮐﺎ ﺑﭽﭙﻦ ﺍﻥ ﺗﻮﻗﻌﺎﺕ ﮐﮯ ﺑﻮﺟﮫ ﺗﻠﮯ ﮐﭽﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ".
ﺍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﺟﺎﻥِ ﻣﻦ !
ﺗﻢ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮔﮩﺮﯼ ﻧﯿﻨﺪ ﺳﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺑﺎﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﮐﮭﮍﮮ ﻧﺎﺩﻡ ﺩﻝ ﺍﻭﺭ ﻧﻢ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ .
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﻮﻟﮯ ﺑﮭﺎﻟﮯ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﯿﭩﮯ ! ﻣﯿﺮﮮ ﻟﺨﺖِ ﺟﮕﺮ ! ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﻗﺼﻮﺭ ﻭﺍﺭ ﺑﺎﭖ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﻌﺼﻮﻣﯿﺖ ﮐﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﮯ . ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺼﻮﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﮨﮯ . ﻭﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻧﻨﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﭘﺮ ﭘﯿﺎﺭ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﮐﻮ ﭘﮑﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ...... ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺑﺎﺑﺎ ﺟﺎﻥ ﮐﻞ ﺻﺒﺢ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﭼﮭﺎ ﺑﺎﭖ ﺑﻨﮯ ﮔﺎ ...... ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ...... ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ....... ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﮐﮫ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﮐﮫ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮔﺎ ...... ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺮﺍ ﻟﻔﻆ ﺁﯾﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﻮ ﺗﺎﻻ ﻟﮕﺎ ﺩﮮ ﮔﺎ ....... ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﻏﻠﻄﯽ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﮐﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺍﺻﻼﺡ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ . ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﯾﮏ ﺑﭽﮯ ﮨﻮ ﺻﺮﻑ ﺑﭽﮯ . ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺳﮯ ﺑﭽﮯ .
ﻣﯿﺮﮮ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺑﯿﭩﮯ ! ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻥ ﻧﺌﮯ ﺍﺭﺍﺩﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﺧﺮﻭ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺘﻘﺎﻣﺖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ .
ﺷﺐ ﺑﺨﯿﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﻮﺭِ ﻧﻈﺮ !
ﮐﻞ ﺻﺒﺢ ﺟﺐ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻠﮯ ﮔﯽ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﺍﯾﮏ ﺑﺪﻣﺰﺍﺝ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﺍﺧﻼﻕ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺎﺭ ﺑﮭﺮﮮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﮨﻮ ﮔﺎ .
( ﺗﺤﺮﯾﺮ : ﻃﺎﮨﺮ ﻣﺤﻤﻮﺩ )
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment