منافقین و گستاخانِ رسولِ مدینہ اوراخلاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم
(عبداللہ بن ابی منافقین کا سردار اور بہت بڑا گستاخ رسول تھا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیٹھ پیچھے مذاق اڑایا کرتا اوران کو برا بھلا کہتا۔
اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے دل میں نفرت، بغض اور کینہ رکھا ہوا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر زنا کی تہمت لگانے میں پیش پیش تھا۔
عبد اللہ بن ابی کے یہ الفاظ قرآن پاک نے بیان کئے۔
يَقُولُونَ لَئِن رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کرگئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نکال دے گا اسے جو نہایت ذلت والا ہے۔
عبداللہ بن ابی کا بیٹا عبداللہ مخلص مومن تھا اس نے جب اپنے باپ کے اس قول کے بارے میں سنا تو وہ مدینہ کے باہر ٹھہر گیا اور لوگ مدینہ میں داخل ہوتے رہے یہاں تک کہ اس کا باپ (عبداللہ بن ابی ) آیا تو اس نے کہا : ” ٹھہرجا “ ابن ابی بولا تجھ پر افسوس ہے کہ تجھے کیا ہوگیا ہے۔ عبداللہ بن عبداللہ بن ابی نے کہا : خدا کی قسم کہ تو کبھی بھی مدینہ میں داخل نہ ہوسکے گا مگر یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے لئے اجازت فرمائیں اور آج تجھے ضرور پتا چل جائے گا کہ سب سے زیادہ عزت والا کون ہے اور سب سے زیادہ ذلت والا کون ہے پھر وہ پلٹ کر گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملاقات کی اور جو کچھ اس کے بیٹے نے کیا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی شکایت کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی طرف پیغام بھجوایا کہ اس کو چھوڑ دو اور (جانے دو ) تو انہوں نے باپ کو جانے دیا. عبداللہ بن ابی کے بیٹے نے اپنے باپ سے کہا کہ اللہ کی قسم ہم اس وقت تک یہاں سے نہیں جائیں گے جب تک تم اس بات کا اقرار نہ کرو کہ تم ذلیل اور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معزز ہیں۔ پھر اس نے اقرار کیا۔
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1264
اس سے بڑی گستاخی کیا ہو گی؟ ذرا غور فرمائیں کہ قرآن اور حدیث شریف کیا بتا رہے ہیں کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے بارے میں کیا الفاظ استعمال کیے. اس سے بڑھ کر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کوئی گستاخی اور بے ادبی ہو سکتی ہے؟
یہ سب بہت بڑی گستاخیاں ہیں اور عبداللہ بن ابی نے کیں. اس کے علاوہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی بہت سی گستاخیاں کیں۔ لیکن اس سب کے با وجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے ساتھ کیسا برتاؤ تھا یہ سب مندرجہ ذیل مضمون میں دیکھا جا سکتا ہے۔یہ ساری وضاحت تفاسیر اور سیرت کی تمام مستند کتب سے ثابت ہے.)
نور نبوت کی کرنیں غار حرا کے منبع نور سے پھوٹیں تو اس کا عکس سب سے پہلے مکہ کے معاشرہ پر پڑا، کیوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے ایک مشہور اور معروف قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس طرح اس نئے مذہب کا علم مکہ کے سرداروں اور لوگوں کو سب سے پہلے ہوا۔ مکہ میں اس وقت دو قسم کے اشخاص تھے۔ ایک وہ جو واضح طورپر کافر تھے اور دین اسلام کے کٹر مخالف۔ دوسرا طبقہ ضعیف مسلمانوں کا تھا جو کٹر مسلمان تھے۔ (خیال رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر عورتوں میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے لبیک کہا۔ مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور بچوں میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت علی ابن ابی طالب مشرف بہ اسلام ہوئے۔ پھر قبول اسلام کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے) مکہ میں یہودی اور عیسائی آبادی نہ تھی، بلکہ دین ابراہیمی کی بگڑی ہوئی شکل اور بت پرستی تھی۔ اس کے برعکس مدینہ کا معاشرہ کئی اعتبار سے مکہ سے مختلف تھا۔ پہلا فرق یہ تھا کہ مکہ کی زندگی میں منافق طبقہ موجود نہیں تھا۔ کھل کر لوگ مسلمان تھے یا کھل کر کافر تھے۔ جب کہ مدینہ میں ایک بڑا طبقہ منافقوں کا پیدا ہوگیا تھا۔ یہ طبقہ مالدار، موثر اور باوقار تھا۔ اس نے اسلام کو اندر سے نقصان پہنچانے کے بڑے بڑے پلان بنائے، حتیٰ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا پلان بھی بنایا، مگر چوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی حیات پاک کا خود محافظ تھا اس لئے کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر قادر نہیں ہوسکتا تھا: ارشاد ربانی ہے: ”واللہ یعصمک من الناس“ (النحل)
اس حفاظت کی ضمانت کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کی حفاظت کے لیے پہرہ داروں کو منع کردیا اور کہہ دیا کہ جاؤ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کی ضمانت دے دی ہے۔
منافقین مدینہ میں سب سے پہلا اور اہم نام عبداللہ بن ابی ابن سلول کا ہے۔ اوس اور خزرج بنی قیل کے اولاد تھے اوریمنی تھے۔ یمنی اور مضری قبائل میں باہم سخت جنگ وجدال تھا، مگر حکمت خداوندی دیکھئے کہ اپنے پاسبان پائے یمنی قبائل سے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور خلفائے راشدین کے زمانے میں یمنی اور مضری تنازعات نہیں ابھرے۔ انصار مدینہ یمنی تھے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم مضری تھے۔ یہ دو عناصر اسلامی تاریخ کے مطالعہ کے لیے اشد ضروری ہیں۔ ان ہی تنازعات نے نبی امیہ کے آخر میں اس حکومت کی دھجیاں اڑادیں۔ اندلس میں مسلمانوں کو جو شکست ہوئی اور حکومت کے پرخچے اڑے اس میں بھی یمنی اور مضری قبائل کے اختلاف نے اہم رول ادا کیا، لیکن حکمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور بصیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمنیوں سے استمداد کے ذریعہ دونوں کے اختلاف کا خاتمہ کردیا۔ یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ ایمان تو یمن والوں کا ہے، ان کے دل نرم ہوتے ہیں اور ان کی طبیعتیں حق کے لیے کھلی ہوئی ہیں:
الایمان یمان والحکمة یمانیة انہم ارقہم قلوباً والینہم عریقة ․
ان اختلافات کے دب جانے کے بعد ہم کو اس حکمت نبوی کی عظمت محسوس ہوتی ہے کہ ایک طرف آپ نے صدیوں سے جاری کشمکش کو یمنیوں اور مضریوں کے درمیان سے ختم کردیا، دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوس و خزرج کے درمیان صدیوں سے برپا قبائلی جنگ کی آگ کو بھی دبا کر رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بعاث کے شعلوں کو ہمیشہ کے لیے بجھا دیا۔ جنگ بعاث وہ آخری جنگ ہے جو اوس و خزرج کے درمیان ہوئی، جس میں سینکڑوں آدمی قتل ہوئے، اس جنگ کا ایندھن قبائلی عصبیت تھی۔
ایک بار اوس اور خزرج قبائل کے افراد مل جل کر باہم ایک چوپال میں بیٹھے محبت کی باتیں کررہے تھے کہ ادھر سے ایک یہودی جد بن شماس گزرا، اس نے دیکھا کہ اسلام نے کس طرح سے اوس و خزرج کے درمیان اختلافات کو دور کرکے محبت و خلوص کے رنگ میں رنگ دیا ہے۔ اس بوڑھے یہودی کو حسد ہوا اور اس نے ایک نوجوان یہودی کو وہ نظمیں یاد کرائیں جو بعاث کے جنگ کے بارے میں اوس کے شاعروں اور خزرج کے شاعروں نے کہی تھیں۔ نظم یاد کرانے کے بعد اس نے اس نوجوان کو حکم دیا کہ تم جاؤ اور جاکر اوس و خزرج کے مجمع میں بیٹھ کر انہیں یہ نظم سناؤ۔ اس نے جب ان متاثرانہ نظموں کو سنایا تو اوس و خزرج کے اندر قبائلی جذبات بھڑک اٹھے اور دونوں بولے کہ پھر دو دوہاتھ ہوجائے۔ یہاں تک کہ اسلحہ لیکر دونوں جنگ کے لیے میدان میں پہنچ گئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو آپ سرعت کے ساتھ میدان جنگ میں پہنچے۔ فریقین کو روکا اور فرمایا کہ:
”میں تمہارے درمیان زندہ موجود ہوں اور تم جاہلیت کی جنگ کرنے جارہے ہو۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر فریقین نے سمجھ لیا کہ یہ شیطانی نرغہ اور یہودیوں کی سازش تھی۔ چنانچہ ان دونوں قبائل نے توبہ کی، ایک دوسرے کے گلے ملے اور محبت کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں واپس آئے۔
اس واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مدینہ کے معاشرہ میں قبائلی عصبیت کی اور نفرت کی کیسی کیسی چنگاریاں پوشیدہ تھیں۔ ان میں سے ہر چنگاری شجر اسلام کو جڑ سے اکھاڑنے اور خاکستر کرنے کے لیے کافی تھی، لیکن حکمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی ژرف نگاہی نے سارے عناصر کو دبارکھا تھا۔ ورنہ یہودیت اور نفاق دو بڑے زہر ناک عناصر تھے۔
ا
عبداللہ بن ابی ابن سلول اپنی دادی کے نام سے معرو ف تھا۔ اس کی دادی کا نام سلول تھا، وہ ابن سلول کہلاتا تھا۔ جنگ بعاث کے بعد اس نے زیادہ اہمیت اختیار کرلی تھی۔ اور اوس و خزرج دونوں نے متفقہ طور پر طے کرلیا تھا کہ عبداللہ بن ابی کو مدینہ کا بادشاہ بنادیا جائے گا۔ اس کو تاج پہنانے کی ساری تیاریاں بھی کرلی گئی تھیں، اس درمیان میں نبوت کی شعاعیں مدینہ میں پڑیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ اس وجہ سے صورت حال بدل گئی۔
عبداللہ بن ابی ابن سلول نہایت متمول تھا، بہت خوبصورت اور دل کش شخصیت کا مالک تھا۔ مدینہ میں اس کا طوطی بولتا تھا، وہ قبیلہ خزرج کا سردار تھا، یاد رہے کہ خزرج بڑا قبیلہ تھا اور اوس اس کے مقابلہ میں چھوٹا۔ یہی وجہ ہے کہ اوس نے اپنے افراد کی قلت کے باعث دو یہودی قبائل سے دوستی کررکھی تھی، بن نضیر اور بنی قریظہ سے۔ جب کہ خزرج نے معاہدہ کررکھا تھا بنی قینقاع سے جو نسبتاً چھوٹا قبیلہ تھا۔ اس پس منظر میں تعجب ہوتا ہے کہ انھوں نے اندر سے کوئی بڑی بغاوت کیوں نہیں کی اور اسلام کو پھیلنے دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت کو بظاہر تسلیم کرلیا۔ مگر خدا کا کرنا کہ خود اس کا بیٹا عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول مخلص مسلمان ہوگیا اور ان کی بیٹی جمیلہ بھی مسلمان ہوگئی تھیں۔ اس کے داماد حنظلہ بن عامر راہب شہید ہوئے اور غسیل ملائکہ کہلائے۔
بہرحال اس نے اپنی تاج پوشی کی تقریب کا انتظار کیا، مگرجب بدر کے موقعہ پر ۲ھء میں اسلام کی کھلی فتح ہوئی اور سارے سرداران مکہ قتل کردئیے گئے تو یہود مدینہ بھی ڈر گئے۔ اس وقت خوف کی وجہ سے اور مسلمانوں کی طاقت بڑھ جانے کی وجہ سے ابن سلول مسلمان ہوگیا،لیکن اس کا اسلام ظاہری تھا، اندر سے کافر تھا۔ نہ صرف یہ کہ منافق تھا بلکہ منافقوں کا سردار بن گیا۔ تین سو منافقین مرد اور ستر عورتیں منافقات ان کی قیادت میں تھیں۔ یہ لوگ مسلمانوں کے اندر اپنا اثر رکھتے تھے اور مسلمان کہلاتے تھے، روزہ نماز کرتے تھے مگر ظاہر میں۔ اندر اندر اسلام کے خلاف سازش میں مشغول تھے، کوئی موقع سازش کا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ اس لیے ان سے نپٹنا آسان نہ تھا۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ژرف نگاہی، تحمل و بردباری اور اعلیٰ اخلاق کا کرشمہ تھا کہ اس طبقہ کے ساتھ نہایت فاضلانہ اخلاق کا مظاہرہ کیا اور منافقوں کے نہایت رزائل اخلاق کو برداشت کیا۔
جنگوں میں منافقین نہیں جاتے تھے اور جاتے تھے تو فتنہ پھیلایا کرتے تھے۔ عبداللہ بن سلول بھی عام طور سے غزوات میں شریک نہیں ہوتے تھے۔ ان کی مدینہ میں عظمت اور قبیلہ خزرج میں اہمیت بہت زیادہ تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی عزت کرتے تھے۔ خزرجی صحابہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کرتے تھے کہ : یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس پررحم کیجئے۔ اس لیے کہ یہ تصور رکھتے ہیں کہ مدینہ میں آپ کی آمد سے ان کی بادشاہت چلی گئی۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی دل دہی کیا کرتے تھے۔ ورنہ اندیشہ تھا کہ ان کے قتل اور سخت سزا سے اسلام کا اتحاد ختم ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو کبھی کوئی سزا نہیں دی گئی۔ ایک دوسری بات یہ کہ اتنے بڑے سردار کے خلاف گواہی نہ مل سکی۔
غزوئہ بنی المصطلق میں عبداللہ بن ابی ابن سلول شریک تھے۔ پانی کے لیے ایک جہنی صحابی اور مہاجر صحابی میں جھگڑا ہوا، جہنیوں نے انصار کو مدد کے لیے پکارا۔ مہاجر نے مہاجرین کو آواز دی۔ اس موقع پر ابن سلول نے انصار کو مخاطب کرکے کہا کہ یہ تم سب کا بڑا کارنامہ ہے، تم ان مہاجرین کو اپنے گھر لے آئے، اپنا آدھا مال دے دیا اور ان پر پیسہ خرچ کررہے ہو، میں کہتا ہوں کہ تم ان کی مدد کرنا چھوڑ دو تو یہ سب کہیں اور بھاگ جائیں گے، مدینہ چل کر میں دیکھوں گا کہ عزت والے ذلت والے کو نکال دیں گے۔ اس وقت ایک نوجوان صحابی ارقم بن ارقم موجود تھے، انھوں نے جاکر پورے واقعہ کی اطلاع حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار کی، مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت ایمانی کو جنبش ہوئی، انھوں نے فرمایا: یا رسول اللہ حکم دیجئے کہ میں اس کی گردن قلم کردوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عمر لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں۔
اس واقعہ کی شدت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب ایک صحابی نے کہا کہ ابن سلول کو قتل کردینا چاہیے تو دوسرے صحابی جو خزرج کے تھے اور ابن سلول کے ہم قبیلہ تھے بگڑگئے اور بولے کہ تم ابن سلول کو قتل نہیں کرسکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملہ کو ٹھیک کیا۔ جب ابن سلول کو معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے واقعہ کی اطلاع ہوگئی ہے تو وہ سرعت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور قسم کھاکہا کہ میں نے کچھ نہیں کہا ہے۔ اس واقعہ کے کچھ دیر بعد سورہ المنافقون نازل ہوئی، جس سے ابن سلول کی جھوٹی قسم واضح ہوئی اور حضرت ارقم بن ارقم کی رپورٹ صحیح ثابت ہوئی۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ارقم کو بلاکر سورہ منافقون سنادی۔ اب خدشہ یہ تھا کہ خزرج اور مہاجرین میں اختلاف نہ شروع ہوجائے، اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کا حکم دے دیا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سفر نہیں کرتے تھے اور پھر پورے دن اورپوری رات سفر کرتے رہے، جب تھک گئے تو صحابہ کرام کو پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا، سارے لوگ سوگئے۔ کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ تو اس وقت سفر نہیں کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے ابن سلول کی بات نہیں سنی۔ مطلب یہ تھا کہ فتنہ کو روکنے کے لیے یہ کام کیاگیا تھا۔
اسی سفر میں حدیث افق کا واقعہ پیش آیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کسی ضرورت بشری کے تحت لشکرگاہ سے باہر گئی ہوئی تھیں، جس کاعلم کسی کو نہ ہوا۔ جب وہ واپس لوٹنے لگیں تو ان کی نظر اپنے گلے کے ہار پر پڑی جو ٹوٹ کر گرجانے کی وجہ سے نظر نہ آیا۔ وہ ان کو تلاش کرنے میں لگ گئیں اور دیر ہوگئی، ادھر قافلہ اپنی جگہ سے کوچ کرگیا تھا۔ نہ وہاں کوئی آدمی ہے نہ آدم زاد۔ مجبور ہوکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئیں یہاں تک کہ ان کو نیند آگئی۔ حضرت بلال بن امیہ جو قافلہ کے بعد میں آنے والوں میں سے تھے، انھوں نے حضرت عائشہ کو دیکھا کہ سورہی ہیں تو فرمایا: انا للّٰہ و انا الیہ راجعون اس آواز سے حضرت عائشہ کی آنکھ کھل گئی۔ حضرت بلال بن امیہ نے اپنے اونٹ کو بٹھادیا۔ حضرت عائشہ اس پر بیٹھ گئیں، حضرت بلال اونٹ کی مہار پکڑکر آگے چلتے رہے یہاں تک کہ منزل کو آپہنچے۔ ابن سلول نے اس واقعہ کا فائدہ اٹھایا اورحضرت عائشہ پر اتہام لگایا جس میں بعض مخلص مسلمان بھی اپنی سادہ لوحی کی بناپر منافقین کے ہمنوا ہوگئے۔ ان میں حضرت حسان بن ثابت انصاری، حضرت حمنہ بنت جحش اور حضرت اُماسہ بنت مسطحہ بھی شریک تھے۔ صحیح صورت حال کی وضاحت پر قرآن کی سورہ ”سورہ نور“ نازل ہوئی اور اسے اتہام قرار دیا گیا۔ چنانچہ مذکورہ تینوں حضرات کو اسّی اسّی کوڑے لگائے گئے۔ مگر عبداللہ بن ابی بن سلول سے کوئی باز پرس نہ کی گئی اور نہ انہیں کوئی سزا دی گئی۔ ادھر حضرت عائشہ کو جب معلوم ہوا کہ اللہ نے میری برأت کے لیے پوری سورہ نازل فرمادی ہے تو وہ بہت خوش ہوئیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔
ابن سلول کی مدینہ میں اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے لیے مسجد نبوی میں منبر کے قریب ایک ممتاز جگہ بنادی گئی تھی۔ اس ممتاز جگہ سے وہ لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری کی دعوت دیا کرتا تھا۔ لیکن غزوئہ احد کا موقع آیا اور اس منافق کے مشورے کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم نہیں کیا، اس لیے کہ صحابہ کی اکثریت چاہتی تھی کہ شہر مدینہ سے نکل کر جنگ کی جائے۔ اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر نکلنے کافیصلہ کرلیا، حالانکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے مدینہ میں رہ کر دفاع کرنے کی تھی۔ بہر حال حضور صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز پڑھ کر تیار ہوکر نکلے اورمدینہ کے باہر رات گزاری۔ ابن سلول منافق بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکلا، اس کے ساتھ ان کے تین سو متبعین بھی تیار ہوکر جنگ کے لیے برآمد ہوئے۔ جب صبح ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم احد کے میدان کے لیے چلے جہاں کفار پہلے سے موجود تھے تواس عین موقع پر ابن سلول نے خود بھی اور اس کے متبعین نے مسلمانوں سے علیحدگی اختیار کی اور لوٹ کر مدینہ چلے آئے۔ ابن سلول نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری مخالفت کی اور لونڈوں کا کہنا مان لیا، اگر ہم کو معلوم ہوتا کہ یہ واقعی جنگ ہے تو ہم ضرور شریک ہوتے۔
منافقین بلکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول کے اس رویہ سے کئی سوالات پیدا ہوسکتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب ابن سلول باہر نکل کر جنگ کرنے کا مخالف تھا تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلح ہوکر گھر سے کیوں نکلا اور پھر ساتھ رات بھی گزاری؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام ایک سازش کے مطابق کیاگیا تھا، مقصد یہ تھا کہ عین جنگ کے موقع پر ایک تہائی تعداد کو دشمن کے سامنے سے نکال لیا جائے تاکہ ایک طرف مسلمانوں کی ہمتیں ٹوٹ جائیں اور کفار کی ہمتیں بڑھ جائیں۔ اس کے تین سو آدمی مدینہ لوٹ آئے۔
ایسے سخت منافق کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول نہایت سچے پکے اور کٹر مسلمان تھے۔ انھوں نے جب سنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابن سلول کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بولے یا رسول اللہ میں اپنے باپ کا نہایت فرماں دار ہوں لیکن اگر کسی نے میرے والد کو
No comments:
Post a Comment